عدالتی ریمارکس۔احتیاط کی ضرورت

271

عدالت عظمیٰ کے سربراہ جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس سے ایک بار پھر تنازع کھڑا کردیا۔ اگرچہ عدالت عظمیٰ کے ترجمان نے وضاحت بھی کی ہے کہ چیف جسٹس نے یہ بات اس طرح نہیں کہی تھی بلکہ کسی اور طرح کہی تھی۔ اخبارات نے وہ جملے بھی شایع کیے ہیں لیکن ان کے ریمارکس ہیں تو متنازع علاقے میں۔ یہ کہنا کہ اگلا وزیراعظم شہباز شریف کو دیکھنا چاہتاہوں یا یہ کہ اگلے وزیراعظم شہباز شریف ہی ہوں گے یا یہ کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ چیف جسٹس کے ریمارکس پر صوبائی وزیر رانا ثنا اﷲ کو موقع مل گیا اور انہوں نے پارٹی میں نمبر بنانے کے لیے کہہ دیا کہ اگلے وزیراعظم کا فیصلہ چیف جسٹس کو نہیں کرنا اس کا فیصلہ نواز شریف کریں گے۔ گزشتہ کچھ روز سے تواتر کے ساتھ کچھ ایسے بیانات جاری ہورہے ہیں جن کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ جمہوریت کے خلاف ہی ہیں۔ اس سے قبل چودھری نثار ایسا بیان جاری کرچکے ہیں جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ کوئی جرنیل ہیں کہ کسی جونیرکے ماتحت کام نہیں کرسکتے۔ اب چیف جسٹس نے ریمارکس دے دیے کہ اگر مسلم لیگ کی حکومت آئی تو شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے۔ یہ فیصلہ تو نواز شریف بھی نہیں کرسکتے۔ ابھی تو انتخابات کا اعلان نہیں ہوا پہلے انتخابات ہوں گے پھر کوئی پارٹی اکثریت حاصل کرے گی۔ پھر وزیراعظم بنے گا۔ یہ بات کسی سیاسی رہنما کی طرف سے کہی جاتی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں تھا لیکن کوئی جج یا جرنیل ایسی بات کرے تو لگتا ہے کہ کوئی گیم ہے اور اس ملک میں اتنے بڑے بڑے گیم ہوئے ہیں کہ کسی بھی بات کا کوئی بھی گیم بن جائے گا۔ چیف جسٹس کی جانب سے کسی سیاسی جماعت کے کاموں پر یا اس کے انتخابات جیتنے کی صورت میں کسی کے وزیراعظم بننے کے بارے میں بیان کا یہی نتیجہ ہوسکتا تھا۔ ابھی تو صرف رانا ثنا اﷲ نے اس بیان پر تبصرہ کیا ہے اور وہ بھی اس استحقاق کے بارے میں کہ فیصلہ نواز شریف کریں گے چیف جسٹس نہیں۔ لیکن اگر اس تبصرے پر عدلیہ کے مخالف یا اس سے شاکی دوسرے گروہ اور سیاست دان تبصرہ کریں گے تو یہی کہیں گے کہ میاں ثاقب میاں شہباز کو وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں۔کیا اس طرح چیف جسٹس نے انتخابات میں ن لیگ کی کامیابی کا اعلان نہیں کردیا؟۔چیف جسٹس کی جانب سے کسی شخصیت کی اس طرح تعریف سے یقیناًغلط فہمی پیدا ہوگی۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سے جس انداز میں گفتگو کی وہ بھی قاضی اور پیش ہونے والے فرد کی گفتگو نہیں ہونا چاہیے۔ قاضیوں کے حوالے سے ان کے تبصرے بھی نا مناسب رہے ہیں لیکن پھر بھی رہنمائی کے لیے ایک واقعہ دہرانے میں کوئی ہرج نہیں۔ ایک مرتبہ قاضی امام ابو یوسف اپنے آخری وقت کے قریب تھے اپنے نزدیک بیٹھے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میں نے آج تک کسی فیصلے میں نا انصافی نہیں کی لیکن ایک ایسی غلطی ضرور سرزد ہوئی ہے جس پر روز آخرت پوچھ گچھ ہوسکتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک عیسائی نے خلیفہ ہارون الرشید پر زمین غصب کرنے کا الزام لگایاتھا۔ پورا مقدمہ سنا خلیفہ کے اپنے حق میں حلف اٹھانے کے بعد مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں کردیا۔لیکن غلطی یہ ہوگئی کہ انہیں کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ قیادت کے دن اس پر میرا مواخذہ ہوجائے گا۔ یہ تھا قاضیوں کا خوف خدا۔ ان کا کہناتھا کہ مجھے دونوں فریقوں سے یکساں سلوک کرنا چاہیے تھا۔ ویسے بھی خلفا کے دور میں قاضیوں کا رویہ ان کے ساتھ حکمرانوں والا نہیں ہوتا تھا انہیں عدالت میں عام آدمی کی طرح آنا پڑتا تھا۔ یہاں جس قسم کی گفتگو ہوئی وہ احتیاط کے تقاضوں سے آزاد تھی اسی طرح اگر کوئی اور فریق عدلیہ کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اسے فیصلوں پر اعتراض کا حق تو ہے عدلیہ اور جج کے منصب پر اعتراض کا حق نہیں۔ ججوں کی ذات پر الزامات کا حق نہیں۔ یہ روایت غلط ہے کسی بھی طرف سے ہو اس کو روکنے کی ضرورت ہے۔