دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض؟ 

618

14 فروری کو دُنیا بھر کی طرح ہمارے یہاں بھی پیر ویلنٹائن علیہ ماعلیہ کا عرس سراپا قدس بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ سچ پوچھیے تو صرف ہمارے یہاں سب سے زیادہ دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ مگر اب کے برس عدالتِ عظمیٰ پاکستان نے منع فرما دیا ہے، سو ہر طرف اسی حکم کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اب ۔۔۔ دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض؟
ہم نے عرس منانے میں، اپنے ملک کی دُنیا بھر پر سبقت پانے کی جو بات کی ہے تو یہ بات کسی خوش فہمی یا محض اپنی خوش عقیدگی کے سبب نہیں کی ہے۔ امریکا اور برطانیہ وغیرہ میں بھی یہ عرس اتنے تزک و احتشام سے نہیں منایا جاتا تھا جتنا پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر دکھایا جاتا اور Face Book وغیرہ پر پھیلایا جاتا تھا۔ پھر ہمارے یہاں یہ عرس جتنی وارفتگی اور جس جوش وخروش سے منایا جاتا، مغرب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔ وہاں بالفرضِ محال اگر کسی نے یہ عرس منایا بھی ہوگا تو نجی طور پر ہی منایا ہوگا۔ شاید ہوٹلوں میں۔ شاید پارکوں میں۔ شاید ریستورانوں میں۔ (’گھر‘ ۔۔۔ تو وہاں رہا ہی نہیں)
پہلے تو کبھی ہمارے یہاں یہ عرس نہیں منایا جاتا تھا، مگر جب منایا جانے لگا تو کچھ بزرگوں نے ’ویلنٹائن ڈے‘ کو (نعوذ باللہ) ’لعنت‘ اور اِس کے منانے کو (استغفر اللہ) ’نیا فساد‘ قرار دے ڈالا ہے۔ حالاں کہ کلیۂ رئیسانی کی رُو سے: ’فساد، فساد ہوتا ہے، خواہ پراناہو یا نیا‘۔ ہم اپنے ان بزرگوں کا بہت احترام کرتے ہیں مگر کیا کریں کہ اب وہ (اپنی) عمر کے اُس مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں جہاں پہنچ کر بقولِ حفیظ ؔ جالندھری مرحوم:
ہر بُری بات، بُری بات نظر آتی ہے
لہٰذا چند بزرگوں نے شاعری کی درانتی لے کر اس ’فساد‘ کی ’گہری جڑیں‘ کاٹنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان بزرگوں میں ہمارے کالموں کے سب سے بزرگ قاری جناب مختار حسین شارقؔ بھی شامل ہیں۔ شارقؔ صاحبنے اب سے تقریباً چار برس پہلے فرمایا:
اپنے کتوں کو سُلاتے ساتھ ہیں
اور ماں ہے اولڈ ہاؤس میں کہیں
ویلنٹائن سے عقیدت ہے انہیں
آج کل اُن کی توجہ ہے یہیں
دھوم سے اس کا منائیں گے یہ دن
ہو گا جو کچھ وہ بتا سکتا نہیں
ایسے بد بختوں کے اس تہوار کو
میڈیا نے کر دیا ہے دلنشیں
آ گیا ہے دور کیسا دیکھ لیں
لوگ شارقؔ کی نوا سنتے نہیں
بھئی سُن تو لی۔ اور کیسے سنیں؟مزید کچھ کہہ سن نہیں سکتے۔ کیوں کہ اگلے وقتوں کے ایک اور شاعر مرزا اسداللہ خان غالبؔ کا حکم ہمیں موصول ہوا ہے کہ:
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
سو ہم اِن ’دادا ابّا‘ کو کچھ نہیں کہتے۔ فقط پیر ویلنٹائن علیہ ما علیہ کے فضائل، مناقب اور کرامتیں ہی بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ تو اے بزرگو! جب تک ہمارے سماج کا نطق پیر ویلنٹائن علیہ ما علیہ کے نام سے رُوشناس نہ تھا۔۔۔ عشاق کے ۔۔۔ ’تنِ حروف پہ مفہوم کا لباس نہ تھا‘ ۔۔۔ اور تب تک ہماری شاعری بہت کچھ چھپاتی تھی۔ محبوب کے آگے بھی کچھ نہ کہہ پاتی تھی۔ عُشّاقِ عُظّام بس فارغ بیٹھے محبوب کی بجائے اپنا کفِ افسوس ملتے رہتے تھے کہ: ’’دِل میں کتنے مسودے تھے ولے۔۔۔ ایک پیش اُس کے رُوبرو نہ گیا‘‘ ۔۔۔ القصہ مختصر:
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بِن جُتی سر بسر تھی
وہ تو کہیے کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پیر ویلنٹائن علیہ ما علیہ قبر سے اُٹھ کر آگئے۔ آکر وہ اپنے دستِ مبارک سے نہ جانے کتنے ہل چلوا گئے۔ اور کتنی بِن جُتی زمینیں جُتوا گئے۔ جب تک ہمارے لوگوں نے پیر ویلنٹائن علیہ ما علیہ کا نام نہیں سُنا تھا تب تک ٹٹروں ٹوں محض وارث شاہؒ اور بلھے شاہؒ وغیرھم کے عرس منایا کرتے تھے۔ خواجہ فریدؒ وغیرہ کی کافیاں گایا کرتے تھے ۔ بنیاد پرستی و رجعت پسندی کی حد دیکھیے کہ اِنھی ’غیر ماڈرن‘ پیروں فقیروں پر فخر بھی فرمایا کرتے تھے۔ احسان دانش مرحوم ’دیہات کی صبح ‘ کا منظر کھینچتے ہوئے اپنی دانش کے مطابق بس اسی کو نہایت پُرکیف عاشقانہ اور رومانی منظر سمجھ کر خوش ہولیا کرتے تھے کہ:
وہ جنہیں کچھ ہیر کا قصہ زبانی یاد ہے
اُن کی پُر تاثیر تانوں سے فضا آباد ہے
ہمارے محبوب و محترم شاعر ناصرؔ زیدی کے نام اُن کے محبوب کی طرف سے اگر ۔۔۔ ’کبھی بسے ہوئے خوشبو میں نامے آتے تھے‘ ۔۔۔ تو وہ بچارے بھی (محبوب کی ٹی شرٹ پر لگے ہوئے پرفیوم یا بازار سے خرید کر اُس کے دیے ہوئے گلاب کے بجائے) اُسی نامۂ خوشبو دار کو سونگھ کر خوش ہوجایا کرتے تھے۔ پیر ویلنٹائن علیہ ما علیہ کی دکھائی ہوئی راہِ عشق کے مقابلے میں ہمارے صوفیوں کا عشق بڑا فرسودہ تھا۔ ’صوفی مومن و اشتراکی مسلم‘ مولانا حسرتؔ موہانی اپنے مریدوں کو ’باصفا‘ رہنے کی تلقین یوں کیا کرتے تھے:
شیوۂ عشق نہیں حسن کو رُسوا کرنا
دیکھنا بھی تو اُنہیں دُور سے دیکھا کرنا
اُن کے دور میں’ویلنٹائن کارڈ‘ کا تو دور دور تک تصور بھی نہ تھا، پس اگر محبوب کا خط بھی مل جاتا تھا تواُس سے کسی پارک میں جاکر مل لینے کے بجائے بس یہ جواب بھجوا کررہ جایاکرتے تھے کہ:
پڑھ کے تیرا خط مرے دِل کی عجب حالت ہوئی
اضطرابِ شوق نے اِک حشر برپا کردیا
پھر سب سے بڑا فرق یہ پیش آیا کہ پیر ویلنٹائن علیہ ما علیہ کے تشریف لانے سے قبل ہماری ساری عشق و عاشقی محبوب کو ’قیدِ شریعت‘ میں لانے تک طویل ہوا کرتی تھی اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ:
عاشقی قیدِ شریعت میں جب آجاتی ہے
جلوۂ کثرتِ اولاد دکھا جاتی ہے
جب کہ پیر ویلنٹائن علیہ ما علیہ کے آنے کے بعد سے عاشقی محبوب کو ’سیتاوھائٹ‘ بنا جاتی ہے۔ اس سے قبل عشاقِ کرام اگر کسی روشن خیال، وسیع المشرب، لبرل اور پروگریسو شاعر کی دُختر سے بھی عشق فرماتے تھے تو اُنہیں اُس سے عقدِ اوّل، ثانی، ثالث یا رابع کرکے تمام عمر محبوب کے نان و نفقہ اور اپنے کیے کرائے کا بوجھ اُٹھانا پڑتا تھا۔ پیر ویلنٹائن علیہ ما علیہ کے آنے کے بعد سے یہ سہولت حاصل ہوگئی ہے کہ بیٹی اگر کسی دل پھینک شاعرکی بھی ہو توآپ اُسے ’’گراں بارِ محبت‘‘ کرکے روپوش ہوجائیے۔ باقی معاملات عاصمہ جہانگیر سنبھال لیں گی۔