پاکستان میں رعشہ کے مریضوں کی تعداد 10 لاکھ کے قریب ہے، آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، طبی ماہرین

415

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن (نارف) اور موومنٹ ڈس آرڈرز سوسائٹی پاکستان (ایم ڈی ایس پی) کے اشتراک سے عوامی آگہی کے لیے تیار کی گئی وڈیو سیریز بعنوان ”پارکنسز (رعشہ) کیا ہے؟“ پر مبنی سی ڈی کا اجراءکر دیا گیا۔ طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں رعشہ کی بیماری کے بارے میں جنرل فزیشنز اور عام افراد میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس بیماری کے مریضوں کی تعداد 10 لاکھ کے قریب ہے۔ سی ڈی کی تقریب رونمائی بدھ کو نجی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ تقریب سے صدر نارف پاکستان پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر، بانی عالمی رعشہ پروگرام کینیڈا ڈاکٹر عبدالقیوم رانا، صدر ایم ڈی ایس پی ڈاکٹر نادر علی سید اور جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالمالک نے خطاب کیا جب کہ اس موقع پر پاکستان پارکنسز سوسائٹی کے نمائندے محمد ارشاد جان بھی موجودتھے۔ صدر نیورولوجی اویرنس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر نے کہا کہ 50 سال سے زائد عمر کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے جن میں سے 10 سے 15 فی صدآبادی مختلف دماغی بیماریوں میں مبتلا ہے، پاکستان میں رعشہ کی بیماری کے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن اندازوں کے مطابق رعشہ کے مریضوں کی تعداد 10 لاکھ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیورولوجی سوسائٹی جلد ملک گیر سطح پر مینٹل ہیلتھ سروے کرے گی جس کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو پرپوزل بھیجا جا چکا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع شاکر نے بتایا کہ ماہر امراض دماغ کے پاس 50 سال سے زائد عمر کے مریض آتے ہیں، ان میں پارکنسنز اور الزائمر کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ایم ڈی ایس پی نے رعشہ کے حوالے سے گائیڈ لائنز بھی بنائی ہیں اور اب اس کی آگہی پیدا کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ مریضوں کو سپورٹ فراہم کرنے کے لیے پاکستان پارکنسز سوسائٹی سے اشتراک کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومتی سطح پر سرکاری اسپتالوں میں رعشہ کی بیماری کے علاج کے لیے خصوصی طور پر کوئی انتظام نہیں ہے تاہم اب امید ہے کہ حکومت عمر رسیدہ افراد کے لیے جلد پروگرام بنائے گی۔ بانی عالمی رعشہ پروگرام کینیڈا ڈاکٹر عبدالقیوم رانا نے بتایا کہ عام خیال پہلے یہ تھا کہ رعشہ کی بیماری صرف عمر رسیدہ افراد میں ہوتی ہے لیکن دنیا بھر میں اب پارکنسز کے قریبا 10 فی صد مریضوں کی عمر 50 سال سے کم ہے، رعشہ کی علامات میں لعاب کا گرنا، ڈپریشن، یاد داشت میں کمی، پیشاب پر قابو نہ ہونا، قبض رہنا، سونگھنے کی صلاحیت ختم ہونا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ ایسی بہت سی علامات کو بوڑھا ہونے کے ساتھ معمول سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، اس کے لیے آگہی بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم رانا نے بتایا کہ ان کا پروگرام پاکستان میں رعشہ کے مریضوں کے لیے ادویات کا انتظام کر رہا ہے اور انہوں نے مختلف زبانوں میں لٹریچر بھی تیار کیا ہے۔ صدر ایم ڈی ایس پی ڈاکٹر نادر علی سید نے کہا کہ ان کی سوسائٹی ماہر امراض دماغ کے ساتھ مل مریضوں کی فلاح اور آگہی کے لیے کام کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی سوسائٹی ایک ہزار جنرل پریکٹشنرز کو تربیت فراہم کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ معاشرے میں اگر ہم نے بیماریوں کی تعداد کم کرنی ہے تو بڑے پیمانے پر آگہی اور بچاو¿ کا کام کرنا ہے، اسی طرح ہی ہم مریضوں کا معیار زندگی بہتر کر کے صحت مند معاشرے کا قیام یقینی بنا سکتے ہیں، یہ سی ڈی ہر عام فرد اور مریض کے لیے انتہائی کار آمد ہے۔