بیانیہ یا عملیہ

434

ہمارا طے شدہ موقف ہے کہ جو ریاست کسی دستور کے تحت رو بہ عمل ہے، یہی دستور اس کا ملّی میثاق اور بیانیہ ہوتا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم کی صورت میں قیامت تک کے لیے ایک دائمی بیانیہ جاری فرمادیا ہے، کیوں کہ وہ عالم الغیب ہے اور اُسے ازل سے ابد تک ظہور پزیر ہونے والے حالات کا علم ہے۔ وہ انسانی فطرت، اس کی عقل اور حاجات وضروریات کا جاننے والا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ انسان کے لیے نفع بخش کیا ہے اور نقصان دہ کیا ہے۔ انسان اپنی محدود عقل سے آنے والے لا محدود زمانے اور اُس کے تقاضوں کا ادراک نہیں کرسکتا۔ یہ امر بھی مسلّم ہے کہ انسان ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات کا اسیر ہوتا ہے، اس لیے اس کے فیصلوں میں نَقص کا پیدا ہونا لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے دساتیر اور قوانین میں حذف واضافہ اور ترمیمات ہوتی رہتی ہیں۔
ملکی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کا سلسلہ کم وبیش پندرہ سال سے جاری تھا، آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے نے اُسے ایک فیصلہ کن مرحلے میں تبدیل کردیا اور اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں نے سول اور دفاعی اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت سے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ ترتیب دیا، یہ بجائے خود ایک قومی دستورالعمل تھا۔ لیکن لبرل میڈیا بلند آہنگ میں تسلسل کے ساتھ یہ راگ الاپتا رہا کہ نیا قومی بیانیہ آنا چاہیے۔ کچھ ایسا تاثّر دیا جارہا تھا کہ گویا مجوزہ نئے بیانیے کو فریم کر کے ہر جگہ آویزاں کردیا جائے گا، دہشت گرد اسے دیکھتے ہی خوف زدہ ہوکر پلٹ جائیں گے اور راوی ہر سُو چین لکھے گا، حالاں کہ تبدیلی بیانیے سے نہیں آتی، عمل سے آتی ہے۔ ہم نے لمحۂ موجود کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر بیانیہ مرتب کیا تھا، پھر اسے ذمے دار حلقوں کو دیا تاکہ وہ اس میں کچھ کمی یا اضافہ کرنا چاہیں تو بتادیں اور اگر کسی بات کے بارے میں تحفظات ہیں، تو اُس سے بھی آگاہ کریں۔ جب ایک عرصے تک کوئی جواب نہ آیا تو میں نے روزنامہ دنیا میں دو کالموں کی صورت میں اُسے شائع کردیا۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی پانچوں تنظیمات کے اکابر نے لفظ بہ لفظ پڑھ کر اس کی توثیق کی تھی۔
پھر اچانک پردۂ غیب سے ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی صورت میں ایک نئی دستاویز سامنے آئی، اس دستاویز کی رونمائی کے لیے ایوانِ صدر میں ایک بڑی تقریب منعقد ہوئی اور بتایا گیا کہ اس کی ترتیب میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیرِانتظام جامعات کی اجتماعی دانش شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیج پر صدرِ مملکت کے دائیں بائیں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیرِ خارجہ خواجہ محمد آصف کے علاوہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد معصوم یاسین زئی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد رونق افروز تھے۔ اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی قیادت اور دیگر علمائے کرام سامعین کی صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ استقبالیہ کلمات میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس دستاویز کی تیاری میں جناب احسن اقبال کی سرپرستی اور آشیر باد بھی شامل رہی ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین جناب ڈاکٹر مختار احمد نے اپنے خطاب کے دوران فخریہ انداز میں کہا کہ مولانا فضل الرحمن کہیں تو ہم کشمیر کمیٹی کا کام بھی کر کے دے سکتے ہیں۔ گویا ایک دستاویز مرتّب ہوگی، اُسے پڑھ کر بھارت مقبوضہ کشمیر سے دستبردار ہوجائے گا اور کشمیر کو آزادی مل جائے گی۔ مولانا فضل الرحمن کی جگہ ہم ہوتے تو ڈاکٹر مختار احمد کی خدمت میں عرض کرتے: حضور! یہ کارنامہ کل کے بجائے آج اور آج کے بجائے ابھی انجام فرما دیجیے، اندھے کو کیا چاہیے: ’’دو آنکھیں‘‘، پوری قوم ہمیشہ آپ کی شکر گزار ہوگی۔ لیکن مولانا عبدالمالک نے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! کشمیر کسی دستاویز یا تحریر سے نہیں، جہاد سے آزاد ہوگا‘‘۔ مولانا فضل الرحمن گہرا سمندر ہیں، سو وہ اس وار کو سہہ گئے اور خاموش رہے۔
یہ سطور لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مولانا زاہد الراشدی نے لکھا ہے: ’’کیا اب فتویٰ حکومت دیا کرے گی، علماء اس سے دستبردار ہوگئے ہیں؟‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا: ’’جب بنگلا دیش کی پارلیمنٹ میں قادیانیت کے ارتداد کی قرارداد پیش ہوئی، تو پارلیمانی ارکان نے کہا: فتویٰ دینا پارلیمنٹ کا نہیں، علماء کا کام ہے‘‘۔ پھر مولانا نے اس طرح تطبیق کی: ’’فتویٰ علماء دیں گے اور قانونی و انتظامی نفاذ حکومت کرے گی‘‘۔ مولانا زاہد الراشدی کی توجہ کے لیے عرض ہے: ’’یہ تضاد اس دستاویز میں بھی موجود ہے، ایک طرف کہا گیا ہے کہ علماء صحیح غلط کی نشاندہی کردیں، فتویٰ دینا حکومت کا کام ہے اور پھر اٹھارہ سو سے زائد علماء کا متفقہ فتویٰ اس میں شامل کیا گیا ہے‘‘، پس اگر یہ حکومت کا کام ہے تو علماء کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جس طرح جرم کے درجات ہوتے ہیں، اسی طرح شرعی لحاظ سے باطل کا انتہائی درجہ کفر ہے۔ زمینی حقائق سے آنکھیں چرا کر خیالی کارنامے انجام دیے جائیں تو تضادات سامنے آتے ہیں۔ میں نے تو اس ساری کاوش کے پسِ پردہ قوتوں سے کہا تھا: آپ کو ملّاؤں کی کیا ضرورت ہے، آپ کے پاس اپنی اسلامی نظریاتی کونسل ہے، اس کے ذریعے فتویٰ جاری کرا دیجیے اور پھر آبپارہ چوک پر کھڑے ہوکر عام لوگوں سے پوچھیے کہ انہوں نے اس کا کیا اثر لیا ہے‘‘۔ علماء نے شرعی فتوے پر دستخط کیے ہیں، پیغام تو غالب اکثریت نے پڑھا ہی نہیں ہے۔
دوسری جانب افغان صدر جناب اشرف غنی نے کہا: ’’ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی فتویٰ جاری کرا دیجیے‘‘، سلیم صافی صاحب کے ساتھ پروگرام میں افغان سفیر عمرزخیلوال نے کہا: ’’یہ فتویٰ اداروں نے دلوایا ہے، ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی فتویٰ دلوا دیجیے‘‘۔ اسی طرح تحریک لبیک پاکستان کے رہنما علامہ پیر محمد افضل قادری کا بیان نظر سے گزرا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ علماء کفر کو کفر نہ کہیں‘‘۔ میں نے اربابِ اختیار سے کہا تھا کہ فتویٰ وہی مؤثر ہوتا ہے جو علماء اپنی تحریک پر اپنے پلیٹ فارم سے جاری کریں، مگر پشتو زبان کا محاورہ ہے: ’’غریب ملّا کی اذان پر کوئی کلمہ بھی نہیں پڑھتا‘‘۔ ہمارے ہاں جس کام میں سرکار کا مرئی یا غیر مرئی سایا نظر آجائے، اس کے بارے میں پہلے بدگمانیوں کا اظہار ہوتا ہے اور پھر وضاحتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ہم نے اپنے بیانیے میں یہی لکھا تھا: ’’مفتی کا کام دریافت کیے گئے سوال کا شرعی حکم بیان کرنا ہوتا ہے، قضا نہیں ہوتا، قضا عدالت کا کام ہے اور عدالت کا قیام ریاست کی ذمے داری ہے، عدالت کا فیصلہ ریاست وحکومت کی طاقت سے نافذ ہوتا ہے، جب کہ معاشرے میں مفتی کے فیصلے یا فتوے کی پزیرائی اُس کے کردار، علمی حیثیت اور فقہی ثقاہت کی بنیاد پر ہوتی ہے، اس کے پیچھے ریاست وحکومت کی کوئی قوت کارفرما نہیں ہوتی۔ ہم فتوے میں لکھتے ہیں: ’’اگر سائل کا بیان درست ہے تو اس کا شرعی حکم یہ ہے، نہ ہم شخصی حکم لگاتے ہیں اور نہ قضا کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں ہے‘‘۔ جن لوگو ں کی خواہش ہے کہ مذہب کو معاشرے سے دیس نکالا دیا جائے، وہ اپنے دل میں یہ خواہش پال سکتے ہیں، لیکن لمحۂ موجود میں اس کی تعبیر پانا مشکل ہے۔ حکومت مشکل میں ہو تو علماء کو مدد کے لیے پکارتی ہے اور حالات سازگار ہوں تو علماء قابلِ توجہ نہیں رہتے۔ ستمبر 2015ء میں وزیر اعظم ہاؤس میں ایک اجلاس ہوا، اس میں اس وقت کے وزیرِ اعظم، وزیر داخلہ، وزیر مذہبی امور، سول ودفاعی اسٹیبلشمنٹ کے تمام اعلیٰ ذمے داران موجود تھے، میں نے اپنی گفتگو کے دوران کہا تھا: بفرضِ محال کوئی مجھ سے یا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب سے یہ سوال کرے کہ ایک شخص کہتا ہے: العیاذ باللہ! ’’اللہ ظالم ہے‘‘، تو اگر ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ کلمۂ کفر ہے، تو پھر ہمیں اپنی مصروفیت کے لیے افتاء کے منصب کو چھوڑ کر کوئی اور کام اختیار کرلینا چاہیے، کفریات کو تو قرآن نے بھی بیان کیا ہے۔ البتہ اگر بلا سبب کسی کو کافر بنانے کا شوق ہو تو اس سے بڑا بد نصیب اور کون ہوگا۔
اصل کام عملی اقدامات ہوتے ہیں، جن کے نتائج ہر ایک کو نظر آتے ہیں، انگریزی کا محاورہ ہے: ’’اعمال کی تاثیر الفاظ سے زیادہ ہوتی ہے‘‘۔ کوئی ہمیں بتائے کہ حکومت نے اپنا ’’دارالتکفیر‘‘ کہاں قائم کر رکھا ہے، جہاں لوگ یہ جاننے کے لیے رجوع کریں کہ کسی شخص نے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں، محض فیشن کے طور پر یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ یہ ریاست کا کام ہے، اگر ریاست یہ کام انجام دے رہی ہے تو اس کا مقام کہاں ہے، حکومت کے لیے اور آفتیں کیا کم ہیں کہ ایک مزید آفت کو دعوت دے۔ ارتدادِ قادیانیت کے بارے میں جب پارلیمنٹ نے آئینی ترمیم کے ذریعے فیصلہ دیدیا تو اس کے بعد یہ باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ ہمارا اپنا تجربہ ہے کہ ہم دینی مدارس وجامعات کے بارے میں جب بالائی سطح پر بات کرتے ہیں، تو وہ اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ پھر آئے دن اپنے آپ کو کسی نہ کسی ایجنسی کا نمائندہ بتا کرکون مدارس کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، ہر بار ایک ہی جیسی معلومات طلب کی جاتی ہیں۔ کیا ہماری ایجنسیوں کو ہمہ وقت ان کاموں میں مشغول رہ کر دشمن کی سازشوں کا کھوج لگانے اور انہیں بے اثر بنانے کے لیے وقت ملتا ہوگا۔ ہمیں بالائی سطح پر یہ یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ نہ کوئی ایسی ہدایت جاری ہوئی ہے اور نہ یہ پالیسی ہے، جب کہ برسرزمین یہ کارروائی ہورہی ہوتی ہے، شاید یہی مشغلہ سیاست کے میدان میں بھی جاری رہتا ہوگا، اس پر قیاسات کے گھوڑے تو دوڑائے جاتے ہیں، لیکن نقشِ کفِ پا کسی کو نہیں ملتا۔