نواز شریف کارڈ چل پڑا

353

ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف کارڈ چل پڑا ہے۔ پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین کی نشست پر ن لیگ کا امیدوار تقریباً 27 ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیاب قرار پایا ہے۔ اس نشست سے پہلے جہانگیر ترین کامیاب قرار پائے تھے۔ عدالت عظمیٰ سے نا اہلی کے بعد یہ نشست خالی ہوئی تھی۔ اس نشست سے پی ٹی آئی کے امیدوار جہانگیر ترین کو ایک لاکھ 38 ہزار ووٹ ملے تھے لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے موروثی سیاست کے خاتمے کے اعلان کے علی الرغم جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو ٹکٹ دے دیا۔ اگرچہ اس کا احتساب کوئی نہیں کرتا بلکہ یہ روایت تقریباً ہر پارٹی میں ہے کہ باپ کی جگہ بیٹا، بھائی یا بھتیجا خود میاں نواز شریف نے اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو ہی ٹکٹ دیا تھا لیکن صرف چند ماہ کے عرصے میں اتنی بڑی تبدیلی کہ ایک لاکھ 38 ہزار ووٹ 85 ہزار تک رہ گئے۔ اس انتخاب میں جو چیز نئی آئی ہے بلکہ ضمنی انتخابات میں جو گروپ نیا آرہاہے وہ تحریک لبیک پاکستان ہے جس کے ملک اظہر نے دس ہزار سے زیادہ ووٹ لیے۔ یہ تحریک پنجاب میں اب تک میاں نواز شریف کی ن لیگ کو اس طرح نقصان نہیں پہنچاسکی ہے جس طرح خطرات یا خدشات تھے لیکن تحریک لبیک آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ اس ضمنی انتخاب کا اہم پہلو تو یہی ہے کہ مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی کو بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ مسلم لیگی کیمپ میں ملک بھر میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ نتیجہ ایک اور بات کی جانب اشارہ کررہاہے کہ عدالت کے فیصلے کے باوجود مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہورہاہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میاں صاحب کا دعویٰ درست ہے کہ فیصلے عوامی عدالت میں ہوں گے اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف عوام نے فیصلہ دے دیا ہے۔ شہباز شریف نے تو حسب توقع عدالت پر تبصرہ نہیں کیا بلکہ دھرنے کی سیاست والوں پر تبصرہ کیا ہے جب کہ مریم نواز نے عدالت ہی کو نشانہ بنایا ان کے بیان کا مطلب یہی ہے کہ سازشیں ناکام ہوگئیں۔ فیصلے اﷲ کے چلتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میاں صاحب کو نا اہلی کے بعد فرصت ہی فرصت ملی ہے اور وہ 2018ء کی انتخابی مہم کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور عدالت ایک فیصلہ دے کر نا اہلی کی مدت کے تعین میں مصروف ہے۔ یہ رجحان خطرناک ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ملک میں کسی بھی جرم یا بے ضابطگی کا مرتکب شخص انتخابی سیاست میں کود پڑے اور بے تحاشا ووٹ لے کر تمام جرائم اور بے ضابطگیوں کو لائسنس دے ڈالے۔ حالیہ ضمنی انتخاب 2018ء کے انتخابات سے قبل آخری ضمنی انتخاب تھا اور اسے رجحان ساز بھی کہا جاسکتا ہے اگر یہی رجحان رہا تو آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ کو واقعی نواز شریف کی خواہش کے مطابق بہت سارے ووٹ مل جائیں گے اور وہ اپنی نا اہلی کو پارلیمنٹ کے ذریعے ہمیشہ کے لیے ختم کرالیں گے۔ؒ اگر ایسا ہوا تو یہ بھی بری روایت ہوگی۔ اس لیے نہیں کہ نواز شریف نا اہلی کو اہلیت بنالیں گے بلکہ اس لیے یہ روایت بری ہوگی کہ پھر عدالتوں اور عدالتی کارروائیوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ جس کے ووٹ زیادہ ہوں گے وہی پارسا قرار پائے گا۔ تو کیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون آرہاہے۔ اگر ووٹوں کی تعداد ہی پیمانہ ٹھیری تو پھر قانون سازی کی ضرورت ہی نہیں۔ اگرچہ ضمنی انتخاب کے اعتبار سے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ اس علاقے کے رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 50 فی صد کو اس سے غرض نہیں کہ ان کی نمائندگی کون کرے گا اور کس کو اس علاقے سے رکن قومی اسمبلی بنایا جائے۔ اس علاقے میں چار لاکھ 31 ہزار ووٹرز رجسٹرڈ ہیں اور ضمنی انتخاب میں کل دو لاکھ 21 ہزار ووٹ ڈالے گئے گویا تقریباً 50 فی صد رجسٹرڈ ووٹرز الیکشن سے دور رہے۔ اس حوالے سے دونوں ہی سیاسی گروہوں کو غور کرنا ہوگا۔