قومی جرم

192

عزت مآب عادل اعظم پاکستان کا فرمان ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی اولین ذمے داری ہے اور ہم اپنی ذمے داری سے غفلت کے مرتکب نہیں ہوسکتے جو ادارہ بھی اس کی خلاف ورزی کرے گا ہم اس کے خلاف ایکشن لیں گے اگر محکمہ صحت عوام کی صحت کے بارے میں چشم پوشی اور غفلت کا مرتکب ہوگا تو اس سے جواب طلبی ہماری ذمے داری ہے اور جو ادارہ اپنی ذمے داری سے گریزپائی اختیار کرے گا ہم اس کی آنکھیں ہی نہیں، کان بھی کھول دیں گے۔ واقعی! یہ لوگ اسی قابل ہیں کہ ان کی آنکھیں اور کان کھول دیے جائیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا کہ ایسے غیر ذمے دار حکام کے سر بھی کھول دیے جائیں اور اگر ممکن ہوسکے تو ان کی گردنیں بھی لمبی کردی جائیں مگر سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنے گھر پر توجہ نہ دے اپنی ذمے داریوں سے احسن طریقے پر عہدہ برآں نہ ہو وہ دوسروں کو نصیحت کرکے میاں فصیحت کیوں بننا چاہتا ہے؟ اس کے اصل مقاصد کیا ہیں؟؟؟۔ اس خواہش کے پیچھے اخبارات کی زینت بننے کا جنون تو کار فرما نہیں۔ سیاست دانوں کی طرح فوٹو سیشن کا خبط تو نہیں۔
ہائی کورٹ کے ایک ادنیٰ ملازم نے جسٹس صاحب سے گزارش کی کہ رات کو بہت سردی ہوتی ہے، ٹھنڈ کی وجہ سے سارا جسم ٹھٹھر جاتا ہے، ہاتھ پاؤں سُن ہونے لگتے ہیں، اس عذاب سے نجات دلانے کے لیے کوئلے اور انگیٹھی فراہم کی جائے۔ سردیاں گزرنے والی ہیں مگر اس ادنیٰ ملازم کو کوئلہ اور انگیٹھی ابھی تک فراہم نہیں کی گئی ہے۔ اس واقعے پر کسی ستم گر نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے۔ کہتا ہے اس کی وجہ ملازم کا ادنیٰ ہونا نہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ عدلیہ سے وابستہ ہونے کے باوجود اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ عدالتیں فراہم کے لفظ سے الرجک ہیں اگر وہ اپنے ملازمین کو ان کی ضروریات فراہم کرنے لگیں تو۔۔۔ پھر۔۔۔ فراہم کرنا ان کی عادت بن جائے گی اور عادت ایسی بدبخت چیز ہے جو فطرت کو ہی بدل دیتی ہے اور عدالتیں عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر انصاف فراہم کرنے لگیں!!!۔ اور اب ایک تازہ اطلاع کے مطابق عدالت عظمیٰ کے صفائی کے عملے نے چند ماہ کی رکی ہوئی تنخواہوں کی فراہمی کا مطالبہ داغ دیا ہے۔ مذکورہ ستم ظریف کے خیال سے استفادہ کرتے ہوئے ہم عملہ صفائی کو مشورہ دیں گے کہ وہ تنخواہوں کی فراہمی کا مطالبہ کرنے کے بجائے تنخواہیں عطا کی جائیں کا مطالبہ کریں۔ ہمیں سو فی صد یقین ہے کہ چیف صاحب ان کی درخواست پر ہمدردانہ غور فرما کر رکی ہوئی تنخواہیں جاری فرمانے کا حکم صادر فرمادیں گے۔ عدلیہ سے ’’فراہمی‘‘ کی درخواست احمقانہ فعل ہے۔
گزشتہ کسی کالم میں ہم نے ایک ایسے بزرگ کا احوال بیان کیا تھا جن کا مقدمہ بہاولپور ہائی کورٹ میں 2014ء سے زیر سماعت ہے مگر ابھی تک اسے ایسی سماعت نصیب نہیں جو مقدمے کی شنوائی کرسکے۔ بزرگ کی درد بھری داستان سن کر سول برانچ ہائی کورٹ بہاولپور کے انچارج نے پیشی لگوا دی تھی مگر پیشی والے دن جسٹس صاحب رخصت پر چلے گئے سو، بزرگ کے مقدمے کی سماعت نہ ہوسکی۔ خدا خدا کرکے یکم جنوری 2014ء پیشی کی نوید ملی مگر یکم جنوری کو جسٹس صاحب نے دو گھنٹے بعد 26 مارچ 2014ء کی پیشی کا حکم صادر فرما دیا۔ ان حالات اور واقعات کے پس منظر میں یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ 26 مارچ کو مئی یا جون کی پیشی سنادی جائے گی اور پھر موسم گرما کی چھٹیوں کا بہانہ بنا کر اگلی پیشی دے دی جائے گی۔ یوں لگتا ہے جیسے ججوں نے عوام کو انصاف فراہم نہ کرنے کا حلف اُٹھایا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے چند دن قبل ہی فرمایا تھا کہ ہائی کورٹ تین ماہ کے اندر فیصلہ سنانے کی پابند ہوگی، مگر ہائی کورٹ ہر پیشی پر تین ماہ کی پیشی سنا دیتی ہے۔ اس پس منظر میں عدل بحالی کی تحریک نہ چلانا قومی جرم کے زمرے میں آتا ہے، اگر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف عدل بحالی کی تحریک چلائیں تو کامیابی ان کے قدم چومے گی کیوں کہ عدلیہ نے قوم کو زینب سمجھ رکھا ہے۔