عدالتی رویہ

182

کہتے ہیں شاعروں اور سیاست دانوں میں ایک نمایاں وصف یہ ہوتا ہے کہ دونوں قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، ان کی اُمنگوں اور خواہشات کی تکمیل میں معاونت کرتے ہیں۔ ممکن ہے یہ درست ہو مگر ہم نے ان میں کئی قدریں مشترک دیکھی ہیں۔ عموماً دونوں ہی ہم مشرب وہم پیالہ ہوتے ہیں، شباب و شراب کے دلدادہ ہوتے ہیں البتہ شاعر کا دماغ تو زرخیز ہوتا ہے مگر سر ویران ہوتا ہے، ایسا ویران کہ کوئی چڑیا گھونسلہ تک نہیں بناتی، مگر سیاست دانوں کا دماغ ویران اور سر شاداب ہوتا ہے، اتنا شاداب کہ ’’ہما‘‘ اسی پر آشیانہ بنانا پسند کرتا ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو عدلیہ نے نااہل قرار دے کر ان کے خلاف نیب اور احتساب عدالت میں کرپشن کے کئی ریفرنس بھجوائے ہیں، تب سے میاں نواز شریف کو احساس ہوا کہ ہمارا نظام عدل ایک ایسا جال ہے جو پھنس گیا وہ دنیا کا رہتا ہے نہ دین کا، کولہو کے بیل کی طرح عدالتی دائرے کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ وکلا کی فیس بھر بھر کر تنگ آچکا ہوں۔ میاں نواز شریف صاحب! یہ بھی تو سوچتے کہ عدالتیں غریب آدمی کا کیا حال کرتی ہیں؟؟ آپ کے اقتدار کے چند ماہ رہ گئے ہیں اور آپ عدل بحالی کی تحریک چلانے جارہے ہیں، یہ کام تو آپ کو اپنے اقتدار کے ابتدائی سو دنوں میں کرنا چاہیے تھا۔ خیر! دیر آید درست۔

قانون کے ماہرین کے خیال میں سابق وزیراعظم عدلیہ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ ججوں پر دباؤ بڑھا کر اپنے حق میں فیصلے کرانا چاہتے ہیں، عدالت عظمیٰ نااہل قرار دے چکی ہے اب وہ بحال نہیں ہوسکتے۔ سابق چیف جسٹس پاکستان چودھری افتخار کو نااہل سمجھ کر معزول کردیا گیا تھا مگر عوامی دباؤ کے تحت بحال کردیا گیا اگر چیف جسٹس عوامی دباؤ کے تحت بحال ہوسکتے ہیں تو وزیراعظم بحال کیوں نہیں ہوسکتا۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں۔ کیا بُرا وقت آیا ہے انہیں محترمہ مریم نواز شریف کے بیانات پر تبصرہ کرنا پڑ رہا ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ مریم نواز کو محترمہ کہنے میں سبکی محسوس نہیں کرتے مگر ان کے بیانات پر بات کرنے میں سبکی محسوس کررہے ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور مریم نواز جو کچھ عدلیہ کے بارے میں کہہ رہے ہیں وہ عوام کے دل کی آواز ہے۔ عدلیہ نے عوام کو اس حد تک بے زار کردیا ہے کہ وہ اس کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ جس کی جیب میں وکیل کی فیس ادا کرنے کے لیے رقم موجود ہے وہ کسی پر بھی مقدمہ دائر کرسکتا ہے اور جج صاحبان اس مکروہ فعل کو محض اس لیے قابل سماعت قرار دیتے ہیں کہ مدعی کا قانونی حق ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدعا علیہ کو اس ظلم سے نجات دلانا کس کا حق ہے؟ ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا عدلیہ کی ذمے داری ہے مگر ججز ذہنی طور پر ایسے وڈیرے ہوتے ہیں جو وڈیروں کی طرح اپنی عدالتوں میں سائل کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم نے ایک جج صاحب سے پوچھا کہ جب آپ کو یہ علم ہوتا ہے کہ مقدمہ جعل سازی پر مبنی ہے اور دوسرا فریق بے قصور ہے تو آپ اس مقدمے کی سماعت کیوں کرتے ہیں؟۔ فرمانے لگے جب کوئی مقدمہ دائر ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ مرحلہ وار ہوتا ہے۔۔۔ ورنہ۔۔۔ مدعی کا وکیل جانب داری کا الزام لگا کر ان کی عدالت کا بائیکاٹ کردے گا اور بار کونسل ان کے تبادلے کا مطالبہ کردے گی اور یوں ان کا بوریا بستر ہمیشہ سر پر لدا رہے گا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں ورنہ۔۔۔ وہ نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ نہیں کرتے کیوں کہ عمران خان نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ تو ایک مدت سے کررہے ہیں اور یہی ان کا سیاسی مشن ہے۔ آدمی جوش خطابت میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے دراصل وہ نیا نظام عدل بنانے کی بات کررہے ہیں کہ یہی وقت کا تقاضا ہے اور قوم کی ضرورت ہے کیوں کہ موجودہ نظام عدل انصاف فراہم کرنے کی اہلیت سے محروم ہے۔ معروف صحافی اور اینکر حامد میر نے زینب کیس میں ملزم عمران کو مظلوم ثابت کرنے کی بات کی ہے ان کے انکشاف کے مطابق ملزم عمران کے ساتھ بارہ سال کی عمر سے زیادتی ہورہی ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو جس قانون کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے اس کا اطلاق تو اکثر ججوں پر بھی ہوتا ہے کیوں کہ کونسل اور دوسرے فریق کی عدم موجودگی میں جج صاحبان لکھتے ہیں کہ کونسل اور فریقین حاضر ہو۔۔۔ اگلی پیشی ڈال دیتے ہیں۔ دوسرا فریق حاضر ہو کر احتجاج کرتا ہے کہ ابھی تو 9 بجے ہیں اور عدالت کا وقت 4 بجے تک ہے دیر اس لیے ہوئی کہ ٹریفک رش میں پھنس گیا تھا تو جج صاحب کا ردعمل یوں ہوتا ہے تم مجھے ڈکٹیشن دے رہے ہو۔ جانتے ہو تمہاری اس گستاخی کی سزا کیا ہے؟؟؟۔ توہین عدالت کے الزام میں کھڑے کھڑے جیل بھجواسکتا ہوں اس پس منظر میں قوم سے عدلیہ کی توقیر کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے!!!۔