کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا۔ایف آئی اے نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے 10 سینیٹرز اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی تفتیش کے لیے طلب کر لیا۔ایف آئی اے نے جن ارکان کو طلب کیا ہے ان میں ڈاکٹر فاروق ستار، سفیان یوسف، عبدالرؤف صدیقی، سینیٹر احمد علی، ایم این اے ساجد احمد، ایم پی اے عدنان احمد، ریحان ظفر اور محمد معین عامر پیرزادہ شامل ہیں۔ایف آئی اے ذرائع کے مطابق فاروق ستار نے 2 کروڑ 60 لاکھ، سفیان یوسف 2 کروڑ 6 لاکھ 39 ہزار 5 سو، معین عامر پیرزادہ نے 3 کروڑ 24 لاکھ 4 ہزار 5 سو، ریحان ظفر نے 3 کروڑ 52 لاکھ 2 ہزار، ڈاکٹر صغیر احمد نے 3 کروڑ 56 لاکھ 6 ہزار 5 سو، عدنان احمد نے 3 کروڑ 6 لاکھ 70 ہزار، عبدالرؤف صدیقی 3 کروڑ 8 لاکھ 20 ہزار، ساجد احمد نے 4 کروڑ 16 لاکھ 4 ہزار، محمد عادل صدیقی 7 کروڑ 8 لاکھ 52 ہزار اور سینیٹر احمد علی نے 2 کروڑ روپے خدمت خلق فاونڈیشن میں جمع کرائے تھے۔تمام افراد نے یہ رقوم لندن سیکریٹریٹ بھجوائیں تھی۔خیال رہے کہ 2 اکتوبر 2017 کو ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل نے سر فراز مرچنٹ کی مدعیت میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا تھا۔سرفراز مرچنٹ کے الزامات پر ایف آئی اے نے الطاف حسین کے خلاف مقدمہ نمبر 5/2017 درج کیا، جس میں ان کے ساتھیوں اور مختلف کمپنیوں کو نامزد کیا گیا، جس میں سینیٹر احمد علی، فرینڈز کنسٹرکشن، نٹ ویئر کمپنی اور دیگر ذرائع سے منی لانڈرنگ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔مقدمے میں مزید الزام لگایا گیا تھا کہ بابرغوری، ارشدووہرہ، خواجہ سہیل، اور خواجہ ریحان بھی منی لانڈرنگ میں الطاف حسین کے مدد گار تھے۔سرفراز مرچنٹ نے رائل کراؤن پولیس کے حوالے سے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ 2009 سے 2015 کے دوران مختلف ذرائع سے الطاف حسین کے ذاتی اکاؤنٹس اور لندن میں موجود ان کے ساتھیوں کے اکاؤ نٹس میں رقم منتقل کی جاتی رہیں۔اس سے قبل 25 جنوری 2017 کو حکومت پاکستان نے برطانیہ سے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ مقدمات ختم کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کردی تھی۔ذرائع کے مطابق اس حوالے سے حکومت پاکستان نے برطانوی حکومت کو مراسلہ بھی بھیجا ہے اور برطانوی حکام سے الطاف حسین کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات بھی مانگ لی۔وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجے جانے والے مراسلے میں حکومت برطانیہ کی جانب سے الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات ختم کرنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔یاد رہے کہ 13 اکتوبر 2016 اسکاٹ لینڈ یارڈ نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس ختم کردیا تھا۔اسکاٹ لینڈ یارڈ حکام کے مطابق یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ جو پیسے بانی متحدہ کے گھر سے ملے وہ غیر قانونی طریقے سے برطانیہ لائے گئے یا انہیں کسی غلط مقصد کے لیے استعمال کیا جانا تھا جبکہ کیس میں 6 افراد گرفتار اور 28 کے انٹرویوز کیے گئے۔اس سے قبل سال 2013 میں لندن پولیس نے الطاف حسین کے گھر اور دفتر پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں چھاپے مارے تھے۔الطاف حسین کے گھر سے مبینہ طور پر بھاری مقدار میں نقدی برآمد ہوئی تھی جسے ‘پروسیڈ آف کرائم ایکٹ’ کے تحت قبضے میں لے لیا گیا تھا۔اس کے بعد لندن پولیس نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے علاوہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات بھی شروع کردی تھی۔جون 2014 میں الطاف حسین کو برطانیہ میں پولیس نے تحقیقات کے لیے حراست میں لیا تھا، تاہم انہیں چند روز بعد رہا کردیا گیا تھا۔بعد ازاں کیس کی تحقیقات کے دوران ان کی ضمانت میں کئی بار توسیع کی گئی۔رواں سال فروری میں برطانیہ کی میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کیس میں ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین اور دیگر افراد کے خلاف فی الحال فرد جرم عائد کرنے کے لیے شہادتیں ناکافی ہیں۔یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں گرین لین کے علاقے میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ کام سے گھر کی طرف آرہے تھے۔