کج بحثی!

211

ناصر حسنی

عدالت عظمیٰ نے نہال ہاشمی کو نڈھال کیا کیا، توہین کے معاملے میں شور و غوغا کا طوفان بلکہ سونامی آگیا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی عدالت عظمیٰ کے گن گا رہی ہے، قصیدے بھی پڑھ رہی ہے اور یہ مطالبہ بھی کررہی ہے کہ میاں نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر اور دیگر افراد کے خلاف بھی فیصلہ سناتی تا کہ عدلیہ کا وقار بحال ہو اور عوام کی نظروں میں عدلیہ کا اعتماد بھی بحال ہوجائے۔ نہال ہاشمی کے بعد طلال چودھری اور دانیال کے سر پر بھی خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے جسے پیپلز پارٹی اپنی تلوار سمجھ رہی ہے تو کیا جن سیاست دانوں کے نام کے آخر میں ’’ل‘‘ آتا ہے ان کے ایل بی ڈبلیو ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ عدلیہ نے ان کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک برتا ہے، اگر ہمارا وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرح توہین در توہین کا مرتکب ہوتا تو جیل جاچکا ہوتا۔ پیپلز پارٹی والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ عدالتوں کا بہت احترام کرتے ہیں، انہوں نے کسی بھی جج کو لعنت ملامت نہیں کی اگر ہم یہ کہیں کہ عدالتوں پر لعنت ملامت اور ان کی تذلیل کا آغاز پیپلز پارٹی ہی نے کیا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ بھٹو مرحوم کی پھانسی کو عدالتی قتل کہا گیا۔ ججوں کو بکاؤ مال کہنے کی روایت بھی پیپلز پارٹی ہی نے ڈالی۔ عدالتوں کو کینگرو کورٹ کا نام دینا بھی پی پی کی ذہنی اختراع ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما، معروف وکیل اعتزاز احسن کی نظر میں عدالت عظمیٰ نے نہال ہاشمی کو بہت سخت سزا دی ہے۔ نہال ہاشمی نے معافی مانگ لی تھی سو، وہ معافی کے مستحق تھے۔ نہال ہاشمی نے عدالت کی توہین ہی نہیں قوم کی توہین بھی کی تھی اور قوم کی تذلیل کرنا ناقابل قبول جرم ہے۔ ناقابل معافی جرم۔ پاکستان پر جتنا حق نہال ہاشمی کا ہے اتنا ہی حق ہر پاکستانی کا ہے۔ پاکستانیوں اور ان کی اولاد پر پاکستان کی زمین تنگ کرنے کا اعلان دراصل قوم سے جنگ کرنے کا اعلان تھا، طبل جنگ نہال ہاشمی نے بجایا تھا اور جنگ میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ قانون کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ نہال ہاشمی نے جو کچھ کہا ہے اس کے پس منظر پر بھی غور کرنا ضروری ہے اگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر ہر مجرم کا پس منظر دیکھنا ہوگا اور یوں ہر مجرم بے گناہ قرار پائے گا کیوں کہ ہر قتل اور جرم کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہوتا ہے کہ جرم انتہائی اشتعال اور مجبوری میں کیا جاتا ہے۔ اگر اعتزاز احسن کی دلیل کو مان لیا جائے تو پھر قصوری قتل کا پس منظر بھی دیکھنا ہوگا اور اس پر بھی غور کرنا ہوگا۔ وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا کہنا قابل توجہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور مریم نواز توہین عدالت کا ارتکاب نہیں کررہے ہیں، عدالت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ مارنے کا حق رکھنے والا رونے کے حق سے محروم نہیں کرسکتا۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شہدا بنانے کی فیکٹری کھول رکھی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنائی جسے عدالتی قتل قرار دیا گیا اور عدالتوں کو کینگرو کورٹ کہا گیا۔ ان کے ایک بیٹے کی موت منشیات کے زیادہ استعمال کے باعث ہوئی مگر پیپلز پارٹی والے اسے شہید مانتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو عوام نے تسلیم نہیں کیا۔ میاں نواز شریف کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا مگر عوام اس نااہلی کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہماری سیاسی تاریخ بھی یہی کہتی ہے کہ سیاست دانوں نے اپنے خلاف فیصلے کو کبھی نہیں مانا، شاید یہی ہماری نفسیات ہے، یہی ہمارا مزاج ہے، پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن ہی کو دیکھ لیجیے جب بھی عدالت میں پیش ہوتے ہیں فتح کا نشان دکھاتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ سابق وزیراعظم عدالت کے خلاف محاذ کھولنے کے بجائے الیکشن کے محاذ پر توجہ دیں۔ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہے کہ امین و صادق کا فیصلہ عدالت نہیں عوام کرتے ہیں۔ میر خلیل الرحمن کی رحلت پر کراچی کے ایک ممتاز شاعر نے ’’صادق مخبر‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا جس کی بہت تعریف کی گئی۔ دفتر میں موجود سبھی افراد ان کے کالم کی تعریف کررہے تھے ہمیں خاموش دیکھ کر بولے۔ حسنی صاحب! آپ کا کیا خیال ہے؟۔ آپ کی علمیت مشکوک ہوگئی ہے۔ ہم نے جواب دیا بڑے حیران ہوئے۔ وہ کیسے؟ سوال کیا گیا، مخبر صادق رسول پاک کو کہا جاتا ہے کسی اخبار نویس کو مخبر صادق نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارا کہنا تھا کہ موصوف کو چپ لگ گئی، دیگر احباب اور ساتھی بھی خاموش ہوگئے اور ہم اہل کراچی کی اسی ادا پر فریفتہ ہیں۔ انہیں کج بحثی کا مرض نہیں۔