جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکیوں سے پوچھا جائے گا 

503

قرآن کی ایک دل دہلا دینے والی آیت کا ترجمہ کہ: جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں گاڑا گیا۔ میں جب ٹی وی اسکرین پر معصوم زینب کو اپنے قاتل کے ساتھ پیدل جاتا ہوا دیکھتا تھا تو دل میں غم کی لہر دوڑ جاتی اور نہ جانے کیوں میرا ذہن اس واقع کی طرف چلا جاتا جس میں ایک صحابی نے آپ ؐ سے اپنے اسلام لانے سے پہلے کا دلخراش قصہ سنایا کہ کس طرح انہوں نے اپنی تین چار برس کی بیٹی کو زندہ گاڑا تھا۔ آپ ؐ یہ واقعہ سن کر اتنا روئے کے ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی، ایک صحابی نے کہا کہ تم نے آپ کو رنجیدہ کردیا آپ نے ان کو منع کیا اور ان صحابی سے کہا کہ پھر سے سناؤ انہوں نے پھر سے یہ واقعہ سنایا اور آپ ؐ پھر روئے۔
آپ ؐ کی بعثت کے دور میں یہ قبیح رسم تھی کہ لوگ اس خوف سے کہ لڑکی ہو گی تو جنگوں میں اسے لونڈی بنالیا جائے گا اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو بھی لڑکی ہے اس کی شادی بیاہ کرنا پڑے گا اس طرح بیٹی کی پیدائش کو ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ نبی اکرم ؐ نے نہ صرف اس قبیح رسم کو ختم کیا بلکہ عورت کو وہ عزت اور مقام دیا جو کسی اور مذہب میں نہیں ہے، گھر میں بیٹیوں کے ساتھ آپ ؐ کا سلوک یہ تھا کہ جب بھی گھر میں کوئی چیز لاتے تو وہ بیٹیوں میں سے کسی کو دیتے، شادی کے بعد کوئی بیٹی گھر آتی تو آپ ؐ کھڑے ہو کر اس کی استقبال کرتے اور ماتھا چومتے، پھر آپ ؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص نے دو بیٹیوں پرورش کی ان کو بہترین تعلیم و تربیت دے کر ان کی شادی کی وہ شخص جنتی ہے۔ دور جہالت میں عورتوں کے ساتھ بڑا برا سلوک کیا جاتا تھا لوگ آٹھ آٹھ دس دس شادیاں کرتے تھے اور کسی کے بھی حقوق پورے نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی مرجائے تو اس کی بیویاں اس کے بیٹوں میں وراثت کے طور پر تقسیم ہوتی تھیں اسلام نے لاتعداد بیویاں رکھنے پر پابندی لگا کر اسے چار تک محدود کردیا اور پھر یہ کہ ان کو مال میراث سمجھنے کے بجائے وراثت کا حقدار بنا دیا اور یہ وراثت بھی دو طرف سے یعنی باپ کی طرف سے بھی اور شوہر کی طرف سے بھی۔ یعنی اسلام نے پہلا کام تو یہ کیا کہ لاتعداد زوج پر پابندی لگا کر چار تک محدود کر کے خواتین کے حقوق محفوظ کیے دوسرا کام یہ کیا کہ ان کی مال میراث والی حیثیت ختم کر کے انہیں شوہر اور باپ کی طرف سے میراث کا حقدار بنایا تیسرا کام یہ ہوا کہ اگر کوئی عورت بیوہ ہوجاتی تو اسے ایک سال کے لیے الگ ایک چھوٹے سے خراب سے گھر میں رکھا جاتا تھا انہیں میلے کچیلے کپڑے پہننے کے لیے دیے جاتے تھے اور کھانا بھی جو گھر والوں سے بچ جاتا انہیں بھیج دیا جاتا۔ اسلام نے بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن مقرر کی اور اسے شوہر کے گھر پر عدت گزارنے کے لیے ہدایت کی گئی بس یہ کہ اس دوران باہر نہیں جاسکتی اس مدت میں زیب زینت نہیں کر سکتی لیکن اس کے کھانے پینے اور پہننے میں کوئی فرق نہیں رکھا جائے گا۔ یہ وہ مقام ہے جو اسلام نے عورت کو دیے ہیں۔
معصوم زینب جب مجرم عمران کے ساتھ انگلی پکڑے جارہی تھی تو اس نے عمران سے سوال کیا کہ آپ ہمیں کہاں لے جارہے ہیں اس خبیث نے جواب دیا کہ تمہارے ماں باپ سے تمہیں ملانے کے لیے لے جارہا ہوں اور اسی طرح کا سوال اس صحابی کی بیٹی نے بھی اپنے باپ سے کیا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور وہ خوش تھی شاید میرے ابو مجھے چیز دلانے لے جارہے ہیں جس طرح یہ زینب خوش ہوئی ہو گی کہ میں اپنے امی ابو سے ملنے جارہی ہوں۔ پھر جب وہ صحابی گڑھا کھود رہے تھے اور اپنے ہاتھوں مٹی نکال رہے تھے تو ان کی معصوم بچی بھی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے مٹی نکال رہی تھی اور یہ سوچ کر دل ہی دل میں خوش ہورہی ہوگی میں اپنے ابو کی مدد کروں گی اور بعد میں ابو مجھے اچھی اچھی چیزیں دلائیں گے۔ اسی طرح جب اس درندہ صفت انسان نے ننھی زینب کسی کمرے لے جاکر بٹھایا ہو گا تو تھوڑی دیر کے لیے وہ بھی خوش ہوئی ہوگی کہ اب میرے امی ابو آتے ہوں گے میں ان کے سینے لپٹ جاؤں گی خوب روؤں گی پھر وہ مجھے چپ کرانے کے لیے تحفے دیں گے۔ وہ صحابی جب گڑھا کھود چکے تو انہوں نے اپنی بچی کو اٹھا کر گڑھے میں پھینک دیا پھر وہ بتاتے ہیں وہ بچی چیخی اور چلائی کے ابو میں آپ سے آئندہ کوئی چیز کے لیے نہیں کہوں گی میں اپنے کپڑوں کے لیے بھی نہیں کہوں گی لیکن دور جہالت کی شقی القلبی اس معصوم کی فریاد پر غالب آگئی اور ویسے بھی جنگل بیاباں میں اس کی چیخ کس نے سنی ہو گی سوائے کائنات کے اس ربّ نے جس نے کہا ہے کہ آخرت میں ان ہی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں قتل کیا گیا۔ اسی طرح اس درندہ صفت انسان نے معصوم زینب پر مجرمانہ حملہ کیا ہوگا تو وہ بھی امی، امی اور ابو، ابو کہہ کر چلائی ہو گی لیکن ہماری اجتماعی بے حسی کے اس جنگل میں کس نے معصوم زینب کی چیخ سنی ہوگی۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا زینب کے مجرم کو کوئی سزا مل پائے گی اور اس سے بھی بڑا اہم سوال یہ ہے کہ ایسے دلخراش واقعات اتنے تسلسل سے کیوں ہورہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سزاؤں پر عمل درآمد نہیں ہوتا اسی قصور شہر میں اس سے پہلے پچاس سے زائد بچوں کے قاتل کو گرفتار کیا گیا پھر کچھ پتا نہ چل سکا کہ اس کیس کا کیا بنا یہی شہباز شریف صاحب اس وقت بھی وزیر اعلیٰ تھے۔ پھر اسی عمران پر آٹھ بچیوں کے قتل اور زیادتی کا الزام بھی ہے اس وقت پنجاب کی انتظامیہ کیا سو رہی تھی اگر پہلے ہی اس کو عبرتناک سزا دے دی جاتی تو زینب تو بچ جاتی اس لیے اس معصوم زینب کے ایک مجرم تو خود وزیر اعلیٰ پنجاب بھی ہیں۔
ہمیں یاد ہے ضیاء الحق کے دور میں لاہور میں ایک لڑکے پپو کو کچھ لوگوں نے اغوا کیا بد فعلی کرکے اس کو قتل کردیا مجرمان گرفتار ہوئے ان پر مقدمہ چلا اور پھر پانچ مجرمان کو شارع عام پر پھانسی پر لٹکا دیا گیا اس زمانے میں کراچی میں تین نام دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے رامسوامی کے علاقے کا راجا جاوید جو ایک ڈی ایس پی کا بیٹا تھا، کورنگی کا نوشے اور لیاری کا نامی گرامی جو محمد کے نام سے پکارا جاتا تھا ان تینوں کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دی اور کوئی سفارش نہیں سنی گئی ضیاء الحق نے اپنے دور میں اعلیٰ عدلیہ سے موت کی سزا پانے والے کسی مجرم کو معافی نہیں دی۔
ایک کیس ایسا ہوا تھا جس میں درمیان کی راہ یعنی دیت کا راستہ نکالا گیا تھا اداکارہ شبنم کے گھر میں کچھ لوگ داخل ہوئے یہ سب بڑے گھرانوں کے نوجوان تھے انہوں نے شبنم کے گھر پر ڈاکا ڈالا اس کے شوہر روبن گھوش کو رسیوں سے باندھ دیا تھا۔ خبر یہ آئی کہ ڈاکوؤں نے ڈاکا ڈالا لیکن کچھ لے کر نہیں گئے بہر حال اس زمانے میں خبریں بھی ڈھکی چھپی آتی تھیں، مقدمہ چلا پانچوں مجرموں کو موت کی سزا سنائی گئی یہ سب نوجوان بڑے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے۔ ضیاء صاحب کے پاس بہت سی سفارشیں گئیں لیکن وہ نہیں جھکے۔ البتہ یہ ہوا کہ دیت پر کوئی معاملہ ہو جاتا ہے یا مدعی خود معاف کردے تو کوئی اعتراض نہیں چناں چہ اداکارہ شبنم نے دیت تو قبول نہیں کی بلکہ خود اپنے مجرموں کو معاف کرنے کا اعلان کردیا۔
ویسے تو یہ ایک تفصیلی مضمون ہے کہ معاشرے پھیلی ہوئی اس بے راہ روی کے اسباب کیا ہیں اور ان کی روک تھام کس طرح سے کی جائے اس میں ایک فرد کو معاشرے کو خاندان کو اجتماعیت کو اور بہ حیثیت مجموعی ریاست کو اپنی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرنا ہوگا عدلتی مراحل کو آسان بنایا جائے۔ جلدی فیصلے سنائے جائیں اور ان پر فور ی عمل درآمد کیا جائے۔ سخت سزاؤں کے نفاذ بہت سے جرائم میں کمی آسکتی ہے آخر میں والدین سے دست بستہ درخواست ہے کہ اپنے بچوں کو انڈرائیڈ موبائل کے شر شے بچا کر رکھیں۔