پاکستان اور کلدیپ نیر کی شہادتیں

940

پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جس سے ایسی محبت کی گئی کہ دنیا میں شاید ہی کسی ریاست سے ایسی محبت کی گئی ہو۔ اس کی سب سے بڑی مثال بھارت کی مسلم اقلیتی ریاستوں کے مسلمان ہیں۔ ان مسلمانوں کو بخوبی علم تھا کہ ان کے علاقے پاکستان کا حصہ نہیں ہوں گے کیوں کہ پاکستان مسلم اکثریتی علاقوں میں قائم ہونا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے پاکستان کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی اور وہ آج تک اس کردار کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ انہیں ہندوستان میں ’’پاکستانی‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور ان سے آئے دن کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان چلے جائیں۔ اس کے برعکس پاکستان سے ایسی نفرت کی گئی کہ شاید ہی کسی ریاست سے ایسی نفرت کی گئی ہو۔ انگریزوں کو پاکستان کے خیال سے نفرت تھی اور وہ آخری وقت تک قیام پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہے۔ کانگریس اور ہندوؤں کو پاکستان سے نفرت تھی چناں چہ بھارت کی ہندو قیادت نے کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کیا۔ یہاں تک کہ 1971ء میں اس نے پاکستان کے فوجی اور سیاسی رہنماؤں کی حماقتوں، استیصال اور سازشوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان میں عسکری مداخلت کی اور مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس کا جشن منایا۔ یہاں تک کہ بھارت کی ہندو قیادت بچے کچھے پاکستان کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن پاکستان میں بھارتی ایجنٹوں نے بھی پاکستان سے کم نفرت نہیں کی۔ غفار المعروف باچا خان نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے وجود میں آنے کا ماتم کیا۔ ان کے فرزند ارجمند ولی خان پاکستان سے نفرت میں اپنے والد کی ’’بلند سطح‘‘ کو تو نہ چھو سکے مگر انہوں نے ایک کتاب تحریر فرمائی اور دعویٰ کیا کہ پاکستان قائد اعظم کا نہیں انگریزوں کا پروجیکٹ تھا۔ اس دعوے کو تاریخی حقائق کی بنیاد پر عرصہ ہوا رد کیا جاچکا۔ مگر چند روز پیشتر بھارت کے ممتاز صحافی بھارت کے سابق سیکرٹری اطلاعات اور برطانیہ میں بھارت کے سابق سفیر کلدیپ نیر نے بنگلادیش کے روزنامے Daily Star میں ایک کالم تحریر کیا ہے۔ یہ کالم روزنامہ ڈان کراچی کی 7 فروری 2018ء کی اشاعت میں شائع ہوا ہے۔ کلدیپ نیر کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے بارے میں ان کی خود نوشت کے دیباچہ نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ کلدیپ نیر کے نام کا ترجمہ ’’سیکولر ازم‘‘ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ زیر بحث موضوع کے اعتبار سے کلدیپ نیر کی اہمیت کیا ہے؟۔
کلدیپ نیر کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذکورہ بالا کالم میں برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ کلدیپ نیر کے بقول وہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ تقسیم کے ذمے دار جناح ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے کلدیپ نیر کو بتایا کہ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ رچرڈ ایٹلی بھارت اور پاکستان میں کسی نہ کسی قسم کا ’’اتحاد‘‘ دیکھنا چاہتے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن کے بقول انہوں نے گاندھی کو ملاقات کے لیے بلایا تو گاندھی ’’تقسیم‘‘ یا Partition کا لفظ سنتے ہی ماؤنٹ بیٹن کے کمرے سے ’’واک آؤٹ‘‘ کرگئے۔ اس کے برعکس قائد اعظم نے تقسیم کا خیر مقدم کیا۔ کلدیپ نیرکے بیان کے مطابق جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جناح سے پوچھا کہ کیا آپ بھارت کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا چاہیں گے تو قائد اعظم نے واضح الفاظ میں انکار کردیا اور کہا کہ ’’مجھے ان پر یعنی ہندو قیادت پر اعتبار نہیں‘‘۔ قائد اعظم کے اس جواب نے ایٹلی کے خواب کو چکنار چور کردیا۔ کلدیپ نیر کے اس بیان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، برصغیر کی ملت اسلامیہ، اقبال اور قائد اعظم کا ’’Project‘‘ تھا، انگریزوں کا پروجیکٹ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کلدیپ نیر نے تقسیم کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے خود سن کر کہا ہے۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پاکستان ابتدا ہی سے ایک ’’سیکولر پروجیکٹ‘‘ تھا یہ تو مذہبی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے سازش کے تحت پاکستان کو ’’اسلامی ریاست‘‘ بنا ڈالا ہے۔
اتفاق سے اس سلسلے میں بھی کلدیپ نیر کو ’’تاریخی اہمیت‘‘ حاصل ہے۔ کلدیپ نیر نے اپنی خود نوشت Beyond the Lines میں جس کا ترجمہ ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے میں اہم شہادت مہیا کی ہیں۔ کلدیپ نیر اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں۔
’’میں لاہور میں اس جگہ پر موجود تھا جہاں 23 مارچ 1940ء کو ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں اس مطالبے کی حمایت کی گئی تھی کہ مسلمانوں کے لیے مذہب کے نام پر ایک الگ ملک کی تشکیل کی جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ پنڈال جہاں کل ہند مسلم لیگ کا اجلاس ہورہا تھا استعارۃ اس انقلابی تصور سے جل رہا تھا کہ ایک نیا آزاد اسلامی ملک بنایا جائے‘‘ (ایک زندگی کافی نہیں۔ از کلدیپ نیر۔ صفحہ 38)۔
کلدیپ نیر کا یہ بیان صاف بتا رہا ہے کہ بھارت کے ’’سیکولر سپوت‘‘ کے نزدیک بھی پاکستان کی تخلیق اسلام کا حاصل تھی۔ اس سلسلے میں سیکولر ازم کا ہزاروں میل تک نام و نشان موجود نہ تھا۔ اس لیے کہ سیکولر ازم اگر برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے 2018ء میں ’’اجنبی‘‘ ہے تو 1940ء میں آج سے کئی لاکھ گنا اجنبی ہوگا۔ لیکن کلدیپ نیر اس سلسلے میں اپنی خود نوشت کے اندر صرف ایک شہادت فراہم کرکے نہیں رہ گئے۔ وہ مزید لکھتے ہیں۔
’’ (23 مارچ 1940ء کے روز جمع ہونے والے) مجمع کے جوش و خرش نے مجھے خوف زدہ کردیا۔ یا علی طرز کے نعرے بار بار دہرائے جاتے۔ اس سے فضا کو مذہبی رنگ مل جاتا جس میں یہ اشارہ پنہاں تھا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہوگا‘‘۔
یہ باتیں لکھ کر کلدیپ نیرنے 23 مارچ 1940ء کے اجتماع سے قائد اعظم کے خطاب کے جو نکات اپنی خود نوشت کا حصہ بنائے وہ یہ تھے۔
’’ہندو اور مسلمان دو مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا فلسفۂ حیات جدا، سماجی رسم و رواج جدا، ان کا ادب جدا، وہ ایک دوسرے سے شادی کرتے نہیں نہ ایک دوسرے کا کھانا کھاتے ہیں، وہ واقعتاً دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان تہذیبوں کی بنیاد زیادہ تر ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے افکار اور تصورات پر قائم ہے‘‘۔
(ایک زندگی کافی نہیں۔ ازکلدیپ نیر۔ صفحہ 39)
کلدیپ نیر کے یہ بیانات ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کو پاکستان ابتدا ہی سے ایک مذہبی ریاست نظر آتا ہو یا نہ آتا ہو مگر بھارت کے ممتاز سیکولر صحافی اور سابق سیکرٹری اطلاعات کو پاکستان پہلے دن سے ’’اسلامی ریاست‘‘ نظر آتا ہے۔ اتفاق سے اس سلسلے میں ہم ایک اہم اور دلچسپ واقعے کے عینی شاہد ہیں۔ سترہ اٹھارہ سال پہلے ممتاز ناول نگار قرۃ العین کراچی آئیں تو ہمارے عزیز دوست طیب زیدی نے انکشاف کیا کہ قرۃ العین حیدر ان کی رشتے کی نانی ہیں۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ آپ چاہیں تو نانی سے ملاقات ہوسکتی ہے۔ چناں چہ ہم طیب زیدی کے ساتھ قرۃ العین حیدر کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ ملاقات ڈیڑھ دو گھنٹے سے زیادہ جاری رہی۔ ملاقات کے اختتام سے کچھ پہلے معروف ممتاز سیکولر صحافی ایم ایچ عسکری بھی تشریف لے آئے۔ وہ اس وقت روزنامہ ڈان کے متاز کالم نگاروں میں شامل تھے۔ ملاقات میں گفتگو کے دوران ایم ایچ عسکری پاکستان میں مذہب کے بڑھتے ہوئے اثرات کو زیر بحث لے آئے اور کہنے لگے قائد اعظم تو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے مگر مذہبی طبقات نے پاکستان کو اچک لیا اور قائد اعظم کے Vision کے برعکس آج پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے۔ قرۃ العین حیدر نے یہ بات سنی تو کہنے لگیں کہ آپ کا یہ خیال درست نہیں۔ کسی کو پسند ہو یا نا پسند ہو پاکستان بہرحال مذہب کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جناح صاحب سیکولر پاکستان چاہتے تھے وہ ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان بنانے کے لیے نام تو اسلام کا لیا مگر ان کی منزل سیکولر پاکستان تھا۔ جہاں تک میں جانتی ہوں جناح صاحب جھوٹ بولنے والے آدمی نہیں تھے۔ یہ سنتے ہی ایم ایچ عسکری صاحب گونگے بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سامنے قرۃ العین حیدر بیٹھی ہوئی تھیں۔ کوئی مذہبی رہنما یا مذہب پسند صحافی ہوتا تو عسکری صاحب کی زبان قینچی کی طرح چلتی اور دروغ گوئی کے میدان میں اپنے اپنے جوہر دکھاتی۔ قرۃ العین حیدر اسلام پسند نہ تھیں، وہ قیام پاکستان کے بعد بھارت سے پاکستان آئیں تھیں مگر وہ پاکستان کے حالات کو نامساعد پا کر بھارت واپس چلی گئیں مگر چوں کہ انہیں پاکستان کے سیکولر اور لبرل لوگوں کی طرح جھوٹ بولنے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی عادت نہ تھی اس لیے انہوں نے پاکستان اور قائد اعظم کے سلسلے میں وہی کہا جو اصل بات تھی۔ کلدیپ نیر بھی سیکولر ہی ہیں مگر چوں کہ وہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل نہیں ہیں، اس لیے ان سے بھی پاکستان اور قائد اعظم کے حوالے سے جھوٹ نہیں بولا گیا۔
البتہ اپنی خود نوشت انہوں نے ایک مقام پر بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کو متعصب اور مسلم کش فسادات سے صرف نظر کرنے والا قرار دیا ہے اور ہندو اور گاندھی کے بارے میں یہ تاثر دیا ہے کہ انہوں نے فسادات کو روکنے کی کوشش کی۔
تاہم اس سلسلے میں دستیاب دو تاریخی شہادتیں کلدیپ نیر کے بیان کی تردید کرتی ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تصنیف India Wins Freedom میں لکھا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا اور نہرو کے الفاظ میں مسلمان کتوں اور بلیوں کی طرح مارے جارہے تھے مگر نہرو ہی نہیں گاندھی جی بھی اس سلسلے میں سردار پٹیل کے سامنے بے بس تھے۔ یہاں تک کہ گاندھی نے ایک موقعے پر سردار پٹیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں دہلی میں ہوں چین میں نہیں، نہ ہی میں اندھا اور بہرا ہوں۔ چناں چہ میں آپ کی اس بات پر کیسے یقین کرلوں کہ دہلی میں مسلمانوں کے پاس شکایت کا کوئی جواز نہیں۔ (India Wins Freedom Page-235)۔
مگر گاندھی کا یہ تجزیہ بھی سردار پٹیل پر اثر انداز نہ ہو سکا۔ دہلی میں مسلمانوں کا قتل عام جاری رہا یہاں تک کہ اس سلسلے کو روکنے کے لیے گاندھی کو تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنی پڑی۔ ایک طرف مولانا آزاد کا دعویٰ یہ ہے دوسری جانب معروف مورخ ڈاکٹر محمد رضا کاظمی نے کراچی میں اپنی کتاب M.A Jinnah, the out side view کے تعارف کے سلسلے میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیٹر کلارک کی تصنیف The Last 1000 ays of the British Empire کا حوالہ دیا اور کہا کہ پیٹر کلارک نے اس کتاب میں لکھا ہے کہ گاندھی کو اس بات کی فکر نہ تھی کہ (قیام پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات سے) 20 لاکھ ہلاک ہوئے ہیں یا 30 لاکھ۔ محمد رضا کاظمی نے اس سلسلے میں برصغیر کے وائے سرائے لارڈ ویول کے Viceroy Jounal کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1946ء میں لارڈ ویول نے گاندھی اور نہرو سے کہا کہ وہ کیبنٹ مشن کے سلسلے میں کیبنٹ کے وفد کی تعبیر پر تبصرہ کریں تو نہرو سخت ناراض ہوئے اور گاندھی نے کہا کہ خون کا سیلاب ضروری ہے تو عدم تشدد کے باوجود یہ سیلاب بہرحال آئے گا۔ (ڈان کراچی۔ 8 فروری 2018ء)۔
ان حقائق سے عیاں ہوتا ہے کہ نہرو اور گاندھی مسلم کش فسادات کے سلسلے میں جتنے پریشان نظر آتے تھے وہ حقیقی معنوں میں اتنے پریشان نہ تھے۔