عدالت عظمیٰ بمقابلہ عدالت عالیہ

363

عدالت عظمیٰ کے چیف جناب جسٹس میاں ثاقب نثار کسی نہ کسی عنوان سے آج کل خبروں کی زد میں یا خبروں کا حصہ بنے ہوئے ہیں یا تو میاں نواز شریف اینڈ کمپنی ان کے خلاف بیان بازی کررہی ہوتی ہے یا وہ خود کوئی ایسا بیان یا ریمارکس دے دیتے ہیں جو اخبارات میں بہت نمایاں شائع ہوتا ہے۔ اب انہوں نے ایک اور بیان دیا ہے کہ سندھ میں آنکھیں بند کر کے حکم امتناع بانٹے جارہے ہیں۔ بڑے وکیل چیمبر میں جا کر حکم امتناع لے آتے ہیں۔ قانون معطل کردینا سندھ ہائی کورٹ کا کمال ہے جس کو کام نہیں کرنا گھر چلا جائے۔ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کو 15روز میں حکم امتناع کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ کسی عدالت کے فیصلے پر فیصلہ دینا یا اس کے فیصلے کو روک دینا یقیناًعدالت عظمیٰ کا استحقاق بلکہ فرض ہے لیکن جو تبصرہ چیف جسٹس نے سندھ ہائی کورٹ پر کیا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نا اہل ہے یہاں ججز کی کوئی اوقات نہیں نہ ان کو قانون کا علم ہے اور نہ وہ اپنے منصب کے تقاضوں سے واقف ہیں۔ کسی سینئر وکیل کا چیمبر میں جا کر حکم امتناع لینے کا مطلب ججوں کا دباؤ میں آنا ہے۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر سندھ ہائی کورٹ کے تمام ججوں کو فارغ کردینا چاہیے۔ آنکھیں بند کر کے حکم امتناع بانٹنے والوں کے ساتھ یہی ہونا چاہیے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کے آگے بہت بڑا ’’اگر‘‘ ہے۔ اگر یہ بات کوئی سیاسی رہنما کہتا تو عدالت عالیہ سندھ اس کا فوری نوٹس لے کر بیان دینے والوں کو طلب کرلیتی اور کہا جاتا کہ بتاؤ کیوں نہ تمہارے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ اس قسم کے ریمارکس سے تو ماتحت عدالتوں میں بھی بے چینی پیدا ہوگی۔اورعدالت عالیہ ماتحت عدالت تو نہیں۔ عدالت عظمیٰ کے خلاف میاں صاحب اینڈ فیملی اور بہت سے متاثرین لگے ہوئے ہیں۔ اب اپنے قبیلے کو چھیڑ کر عدالت عظمیٰ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس حوالے سے مناسب الفاظ کے ساتھ بھی سرزنش کی جاسکتی تھی۔