میں نہ ہارا ہوں، نہ پسپا ہوا ہوں مگر میری جان کو ایک سازشی ٹولے سے خطرہ ہے۔ پروفیسر سحر انصار

390
کراچی (اسٹا ف رپورٹر) ایک عہد ساز ادبی شخصیت کے اعزاز میں ہونے والی تقریب کو روکا جا رہا ہے۔ اگر یہ سیاسی جلسہ ہوتا تو کیا اسے شفٹ کیا جاتا؟ یہ تو خالص ادبی جلسہ ہے اور دیکھ لیں اسے کتنی پذیرائی ملی ہے۔ بہرحال یہ کش مکش ازل سے جاری ہے وقت کے اماموں کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صدیوں سے یہ مقابلہ جاری ہے مگر فاتح اہلِ علم ہی رہے۔ الزام لگا نے والوں کو بیرونی امداد ملتی ہے۔‘‘ ان خیالات کا اظہار تنظیم اساتذۂ سند ھ (تاس) کی جانب سے معروف ادبی و علمی شخصیت پروفیسر سحر انصاری کی پچاس سالہ علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تقریب پذیرائی کے موقع پر محمود شام نے اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ سحر انصاری نے اپنے گھر کی نہیں پورے معاشرے کی علم و ادب کے ذریعے خدمت کی ہے وہ اکیلے ہی اپنا کارواں لے کر چل رہے ہیںیہ سحر انصاری پر الزام نہیں بلکہ ہماری تمام اقدار پر طمانچے کے نشان ہیں۔سحر انصاری نے ہمیشہ سچائیاں بیان کی ہیں۔ صاحبِ اعزاز پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ ادبی محفلوں میں جانا اور اظہارِ خیال کرنا میرے لیے کبھی مشکل مرحلہ نہیں رہا لیکن آج یہاں جو احباب آئے ہیں، وہ سب اپنی جگہ انجمن ہیں اور یہ تمام خواتین و حضرات محض فرد نہیں بلکہ اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ سب کی محبت اور حمایت میں، میں نہ ہارا، نہ پسپا ہوا بلکہ میرا حوصلہ بڑھا ہے اور قوّت ملی ہے۔میں اُن کے منفی حربوں کو اچھی طرح جانتا ہوں ان کے پاس تائید و تردید میں کچھ نہیں جو کچھ کیا گیا ہے وہ بنے بنائے ذہن نے کام کیا ہے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ایک سازشی ٹولہ میری جان کے درپے ہے، اگر مجھے کچھ ہوا تو اس کے ذمے دار یہ سازشی افراد ہوں گے۔ انجمن کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ ایک شخص پر پتھر اُچھالنا تھا تاکہ سارا منظر گدلاجائے۔ لکھنے والوں پر کیچڑ اُچھالا جارہا ہے لیکن پہلا پتھر وہ مارے جس کا دامن داغ دار نہ ہوسحر انصاری کا نام انجمن ، شہر اور ملک سے وابستہ ہے وہ ہمارے شہر کے ممتازشاعراور نقاد ہیں۔ عمر کے ایسے دور میں اُن کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ جب کہ سحر انصاری نے جوانی کے دور میں کراچی کے علاوہ بلوچستان یونی ورسٹی میں بھی پڑھایا لیکن اس تمام دور میں بھی کبھی کوئی لفظ نہیں سنا۔ انھوں نے سحر انصاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سحر صاحب آپ اپنی بیوی، اپنی بیٹیوں اور قلم کار برادری کی پناہ میں ہیں۔ انجمن آپ کے ساتھ ہے۔ جناب مظہر جمیل، جناب مبین مرزا اورجناب صابر ظفرنے بھی اس موقع پر سحر انصاری کی پچاس سالہ ادبی خدمات کا ذکر کیا۔ جناب مبین مرزا نے یہ بھی کہا کہ جمیل الدین عالی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ہم تنقید کے عہد سحر انصاری میں جی رہے ہیں۔ عنبریں حسیب عنبر نے کہا کہ پروفیسر سحر انصاری نے ساری زندگی محبت کمائی ہے جس کی وجہ سے آج یہ دولت مل رہی ہے۔ سحر انصاری میرے والد، استاد ہی نہیں، دوست بھی ہیں۔وہ ہم بہن بھائیوں میں اپنی بیٹیوں سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی ڈیڑھ لاکھ کتابوں پر مشتمل لائبریری کا تحفہ مجھے دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج اس مشکل وقت میں ہم لوگ کسی خاندان اور برادری کی طرح ایک ساتھ کھڑے ہیں کیوں کہ شاعر و ں اور ادیبوں کا طبقہ کمزور نہیںیہ باعزت طبقہ ہے۔صدرِ انجمن ذوالقرنین جمیل نے کہا کہ اگر پاکستان رائٹرز گلڈ ہوتی تو جو کچھ آج ہورہا ہے یہ نہ ہوتا۔ سحر انصاری ہمارے لیے اثاثہ ہیں۔ لوگ آہستہ آہستہ جارہے ہیں ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ سحر صاحب کے لیے عالی جی کے بڑے اچھے خیالات تھے۔ انھوں نے کہا کہ انجمن کے لیے اعزاز بلکہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ سحر انصاری یہاں اعزازی کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے تنظیم اساتذہ کو مبارک باد پیش کی کہ انھوں نے یہ تقریب سجائی اور کہا کہ آئندہ بھی انجمن کی نئی عمارت ’اُردو باغ‘ میں تقریبات کے لیے ایئر کنڈیشنڈوسیع ہال کے دروازے کھلے ہیں۔ تنظیمِ اساتذۂ اُردو سندھ کے صدر پروفیسر ہارون رشید نے پروفیسر سحر انصاری کی پچاس سالہ علمی و ادبی خدمات پر تقریب پذیرائی کے موقع پر نظامت کرتے ہوئے تقریب کی غرض وغایت بیان کی کہ کچھ مجبوریاں اور رکاوٹیں تھیں جس کی وجہ سے مقام تبدیل کرنا پڑا۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ذوالقرنین جمیل نے جگہ کی تبدیلی کے لیے فوری طور پراپنی محبت کا ثبوت دیا۔سیّد عابد رضوی نے کہا کہ سحر انصاری پر ضعیفی میں ایسا جھوٹا الزام لگانا شرم ناک ہے۔ وہ علم کا خزانہ ہیں، وہ بلاتکان شعر و ادب پر گفتگو کرتے ہیں۔تقریب سے شبی فاروقی، شاہدہ حسن،صابر ظفر، غزل انصاری، خالد معین، اوجِ کمال، راحت سعید، ریحانہ روحی، اویس ادیب انصاری،نسیم نازش، رخسانہ صبا، ریحانہ احسان، پروین حیدر، صبیح رحمانی، روبینہ تحسین بینا، صائمہ، اور دیگر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سحر انصاری کو پھول پیش کی،جب کہ تنظیمِ اساتذۂ اردو سندھ (تاس) کے تمام عہدے داران نے بھی پھول اور تحائف پیش کیے اور شال اُڑھائی۔ صبیح رحمانی نے اپنی جانب سے پروفیسر سحر انصاری اور اُن کی بیگم کو عمرے کی ادائیگی کے لیے ٹکٹ کا اعلان کیا۔ اس سے قبل انجمن ترقیِ اردو پاکستان کی جانب سے پروفیسر سحر انصاری کو صدر انجمن ذوالقرنین جمیل اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے یادگاری شیلڈبھی پیش کی۔ شہر کی جن اہم شخصیات نے شرکت کی، اُن میں قادر بخش سومرو، عقیل عباس جعفری، حیات رضوی امروہوی، اشتیاق طالب، فہیم شناس کاظمی، ڈاکٹر منیر، قاضی معیز، نجم الدین شیخ، ناہید عزمی، ڈاکٹر شاہین، روبینہ تحسین بینا، بیگم رؤف تنویر، صائمہ نفیس،اختر سعیدی، انیس جعفری، وقار زیدی، تنویر سخن، صفدر علی خان، شبینہ انصاری، شاہدہ قمر اور بے شمار خواتین و حضرات شامل ہیں۔