میاں منیر احمد
بلقان کے مسلمان پکاریں یا‘ بوسینیا کے مظلوم‘ چیچن ہوں یا افغان‘ جناب محمد زمان بٹ کی تربیت یافتہ اولاد ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہراول دستے کے طور پر دستیاب رہی‘ برادرم عبدالمجید نے محبوب الزمان بٹ کے والد قبلہ محمد زمان بٹ صاحب کے انتقال کی روح فرسا اطلاع دی‘ اطلاع دیتے ہوئے وہ خود بھی پریشان تھے ان کی یہ کیفیت کیوں نہ ہوتی‘ وہ سری نگر کی آزادی کی جنگ میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرنے والے دوشہداء مقصود الزمان بٹ اور عتیق الزمان بٹ شہید کے والد کے انتقال کی اطلاع دے رہے تھے۔
جناب محمد زمان بٹ کے انتقال کی اطلاع ملی تو ماضی میں کھوگیا پانچ فروری کا پہلا یوم کشمیر اور اس کا ایک ایک لمحہ جناب زمان بٹ صاحب کی رفاقت کا گواہ اور شیدائی رہا‘ جہاد ہی اصل میں ان کی زندگی تھی‘ اس راہ میں دو جوان بیٹوں کی شہادت عملی ثبوت‘ مقصود الزمان بٹ شہید کو بھارتی میڈیا نے میجر مقصود لکھا کہ وہ کشمیر کی آزادی کی جنگ میں بڑی بے جگری سے لڑے اور شہید ہوئے‘ کہ ان کی تربیت محمد زمان بٹ نے کی تھی‘ بلاشبہ وہ ایک کامیاب زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے‘ ان کی زندگی کے کسی بھی پہلو پر گفتگو کر لی جائے جدوجہد اور جہاد کی تیاری کے سوا ہمیں کچھ نہیں ملتا ان کا گھر اور گھرانہ‘ جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان کی داستانوں کا امین ہے ان کی زندگی عملی طور پر جہاد کے بہت قریب رہی ہے ایسا لگتا تھا کہ انہیں دنیا داری پسند نہیں ہے‘ وہ جیسی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں بہت کم انسانوں کے نصیب میں ایسی زندگی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ کسی نے درست کہا کہ زندگی سے محبت کرنے والے موت سے عشق کرنے والوں کا کہاں مقابلہ کرسکتے ہیں۔ افغانستان‘ کشمیر اور شیشان میں ہونے والے جہاد اور جدوجہد کی تاریخ رقم کرنے والوں میں شامل رہے ہیں اور اس سفر میں وہ کبھی پچھلی صفوں میں نہیں رہے، ہمیشہ سینہ کھول کر آگے آگے رہے ان کی اولاد آج بھی اس بات پر فخر کرتی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ان جیسا والد عطا کیا ان کے انتقال پر اگر یہ لکھا اور کہا جائے کہ فیصل آباد میں آج مجاہد صفت انسان یتیم ہوئے ہیں تو یہ بات غلط نہیں ہوگی۔
جنرل مشرف کے دور میں ان کا گھرانہ ابتلا میں رہا کہ جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد ڈالروں کے بدلے امریکیوں کے دباؤ میں آکر ہر اس گھر پر پہرے بٹھا دیے تھے کہ جس گھر کا کوئی بھی فرد جہاد سے وابستہ رہا‘ جہاد افغانستان تو جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوا لیکن حالات بدلے تو ہر تنخواہ دار جنرل مشرف کی صف میں آن کھڑا ہوا‘ زمان بٹ اور ان کی اولاد کسی دنیاوی فائدے کے لیے جہاد کا حصہ نہیں بنی تھی لہٰذا یہ گھرانہ اپنے پاؤں پر کھڑا رہا‘ اس گھر کی بزرگ پاکباز خواتین اپنے ثاقب اور شعبان کی تلاش میں اسلام آباد پہنچیں‘ واویلا نہیں کیا لیکن بہت سے سوالات میڈیا کے ذریعے پاکستان کے معاشرے کے سامنے رکھے‘ حکمرانوں کو جھنجوڑا‘ انہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معنی بتائے‘ لیکن جنرل مشرف اور ان کی حکومت نظریہ ضرورت کی اسیر بن کر جہاد سے دستبردار ہوچکی تھی لہٰذا ان کی آواز بے اثر ہوئی‘ تاہم یہ ضرور بتا گئیں کہ ثاقب اور شعبان‘ دونوں‘ کھرے پاکستانی‘ سچے مسلمان‘ بہادر اور نظریہ پاکستان کے ہامی جری جوان ہیں ان بچوں کے اخلاق کو قبلہ زمان بٹ نے سینچا تھا اور ہدف یہی دیا تھا کہ ’’کہہ دو کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے اس گھرانے کے ایک ایک فرد کا یہی آج بھی ہدف ہے کہ یہ گھرانہ اسلامی نظریے، عقیدے اور جہد مسلسل کا نام ہے اور چاہتا ہے کہ وطن عزیز ایک فلاحی اسلامی ریاست بن جائے جہاں شریعت کے مطابق قانون سازی ہوجائے یہ کام عوام کی رائے، قوت اور رضا مندی کے ساتھ ووٹ کی طاقت کے ذریعے ہو یہ اہداف ضرور حاصل ہوں گے کیوں کہ ان کا ہر لمحہ، ہر سانس پاکستان اور اسلام کی محبت کے لیے تھا وہ اُمت مسلمہ کے سر کا تاج اور ماتھے کا جھومر تھے۔ وہ بلند نگاہ، دلنواز سخن اور پرسوز جان رکھتے تھے۔ وہ ظلم کے خلاف ایک توانا آواز تھے‘ مظلوموں کی ڈھارس بندھاتے تھے آج کوئی نہیں جس کی طرف اس طرح اُمید کی نگاہ سے دیکھا جائے ان کے انقلابی آفاقی نظریات جماعت اسلامی کے کارکنوں کے لیے مشعل راہ ہیں ۔مضبوط معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر فرد اپنا کردار ادا کرے اور دوسروں پر ملبہ پھینکنے کے بجائے خود تعمیر وطن کرے تو محمد زمان بٹ کا مشن پورا کیا جاسکتا ہے یہ ذمے داری ان کے صاحب زادے محبوب الزمان بٹ نبھا رہے ہیں ان کے ہر دوست اور احباب کو اس پر فخر رہے گا انہیں زمان بٹ جیسی شخصیت کی رفاقت میسر رہی۔ جماعت اسلامی کو ایک عوامی مگر دینی اقدار کی بنیاد پر مقبول جماعت دیکھنے کی ہمیشہ تمنا رہی کہتے تھے کہ جماعت اسلامی کو اخلاقی معیار کی ایک قوت بننا چاہیے اور سیاسی کامیابی اصل ہدف نہیں ہونا چاہیے ان کا ایجنڈا اور دلی تمنا تھی کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں کی سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ اور دیگر اکابرین کے وژن کے مطابق اخلاقی روحانی تربیت کریں وہ سیاسی طور پر جماعت اسلامی ملک کی سب سے بڑی جماعت دیکھنے کے طلب گار رہے ان کا ہر لمحہ، ہر سانس پاکستان اور اسلام کی محبت کے لیے تھا۔ محروم طبقات کو تقویت دینے کے لیے اپنا ہر لمحہ صرف کرتے تھے وہ ہر ایک کا خیال رکھتے تھے۔ معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا وہ بلند نگاہ، دلنواز سخن اور پرسوز جان رکھتے تھے‘ ان کے انتقال پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ فیصل آباد شہداء کشمیر کے دوست سے محروم ہوگیا ہے۔
خبر میں‘ نظر میں‘ ازان سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہی کے جگر میں