جہیز کے خلاف محض ایک بل

282

وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت ایک اجلاس میں جہیز کے خلاف سخت اقدامات کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اجلاس میں بل پیش کیا گیا کہ دولہا یا اس کے اہل خانہ جہیز کا مطالبہ نہیں کریں اور نہ ہی اس معاملے میں دباؤ ڈال سکیں گے۔ یہ بل اس لحاظ سے اہم ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کرانے اور جہیز فراہم کرنے والے بہت سے ویلفیئر اور مخیر حضرات ملیں گے لیکن شادی کے نام پر خرافات اور جہیز کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی مخالفت موثر انداز میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ امیر ہو کہ غریب، ہر ایک اس کا ستایا ہوا ہے۔ لڑکے والے زیادہ مال اس لیے طلب کرلتے ہیں تاکہ خاندان والوں کو بتا سکیں کہ لڑکے کا نکاح ’’کفو‘‘ میں ہوا ہے جبکہ لڑکی والے سسرال میں طعنوں سے بچنے اور غریبی کا بھرم رکھنے کے لیے مطالبات کی فہرست میں لکھی ہر خواہش کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرے رخ پر کنوارے لڑکوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ معاشرے میں بہت سے ایسے مرد موجود ہیں جو بیوی کو نان نفقہ دینے کی قدرت رکھتے ہیں لیکن محض اس لیے شادی نہیں کر پاتے کہ وہ خاندان والوں کی خواہشات اور ناک اونچی رکھنے کے لیے دھوم دھڑکا نہیں کرسکتے۔ موجودہ زمانہ حقیقی طور پر اس حدیث کا مصداق ہے جس کی رو سے نکاح مشکل اور زنا آسان ہوگیا ہے۔ دین اسلام میں نکاح کے لیے جہیز ضروری قرار دیا گیا ہے نہ شادی کے اخراجات پورا کرنے کو شرط بنایا گیا ہے، بلکہ نان و نفقہ پر قدرت کو معیار بنا کر دعوت ولیمہ تک کو سنت تک محدود رکھا گیا ہے۔ سندھ اسمبلی کے بل میں کہا گیا ہے کہ شادی کے اخراجات 50ہزار سے زیادہ نہیں ہونے چاہییں۔ سنت کے مطابق اس میں مزید کمی کی گنجائش موجود ہے۔ یہ مسئلہ صرف ایک بل پیش کرنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں علما و خطبا کے ساتھ ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جبکہ اس مہم میں مرکزی کردار تونگر حضرات کا ہوگا کہ وہ ہر طرح کی آسائش اور سہولیات ہوتے ہوئے بھی شادیوں میں سادگی اور سنت کا اہتمام کریں تاکہ غریب طبقہ ان کی پیروی کرے اور ان کی غریبی پر حرف بھی نہ آئے، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ لڑکی والوں پر بارات کی دعوت وغیرہ بھی لازم نہیں ہے۔ بل میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ منہدی کی رسم پر بھی 50ہزار روپے سے زیادہ خرچ نہیں کیے جائیں گے۔ لیکن منہدی کی رسم کیوں؟ مسلمان معاشرے میں یہ رسم ہندو معاشرے سے آئی ہے۔ اس پر مکمل پابندی ہونی چاہیے لیکن کیا ایک بل کے ذریعے اصلاح ہوسکتی ہے؟