عدالت اور سیاست میں مناظرے کی فضا

246

اس وقت عدالت عظمیٰ اور نا اہل وزیر اعظم نواز شریف میں مناظرے کی سی کیفیت نظر آرہی ہے۔ بیچ بیچ میں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز بھی اپنا حصہ ڈالتی رہتی ہیں اور اپنے والد کی ترجمان بن کر ججوں کو لتاڑتی رہتی ہیں اگر نواز شریف کی طرف سے کچھ کسر رہ جاتی ہے تو وہ پوری کردیتی ہیں۔ توہین عدالت کھلم کھلا ہو رہی ہے اور چیف جسٹس کے مطابق عدالت تحمل سے کام لے رہی ہے۔ نہال ہاشمی کو ایک ماہ کی سزا دی گئی تو وہ بھی نواز شریف کے سپاہیوں میں صف اول میں آگئے۔ کچھ اور بھی ایسے ہیں جو بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں اور اگر توہین عدالت کے دائرے میں آگئے تو آئندہ انتخابات میں شمولیت مشکوک ہوجائے گی مریم نواز کے پاس فی الوقت کوئی عوامی عہدہ نہیں ہے تاہم وہ اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھرپور تیاری کررہی ہیں اور نواز شریف کو نا اہل قرار دینے سے انہیں بڑے زور و شور سے سیاست میں آنے کا موقع مل گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ عدالتوں اور ججوں کے خلاف ان کی شوریدہ سری یہ موقع ضائع کردے۔ دوسری طرف عدالت عظمیٰ کے محترم جج صاحبان ہیں جو کوئی فیصلہ دینے کے بجائے طرحی مشاعرے میں حصہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو انتخابی اصلاحات ایکٹ سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے محترم چیف جسٹس نے ایک بار پھر تبصرہ کیا ہے کہ کوئی چور ڈاکو پارٹی کا سربراہ بن جائے تو اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ سربراہ آلودہ ہو تو پوری پارٹی آلودہ ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آئین کے محافظ کے طور پر دیکھنا ہے کہ کہیں کوئی چور اچکا کسی جماعت کا سربراہ نہ بن جائے، جس صورت حال کا سامنا ہے اس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اصولاً تو جناب چیف جسٹس کی بات صحیح ہے کہ کوئی چور، ڈاکو کسی پارٹی کا سربراہ بن جائے تو پوری پارٹی ہی آلودہ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارٹی کے ارکان بھی اپنے سربراہ کے نقش قدم پر چلیں گے۔ جیسا امام ویسے مقتدی۔ لیکن پہلے عدالت عظمیٰ یہ تو ثابت کرے کہ نواز شریف چور، ڈاکو ہیں۔ ان کو ایک عرب ریاست کا اقامہ رکھنے اور اس کی بنیاد پر اپنے بیٹے کی کمپنی میں ملازمت کرنے پر نا اہل قرار دیا گیا۔ ایک وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کا یہ فعل یقیناًپوری قوم کے لیے باعث شرم تھا جس کی سزا انہیں مل گئی۔ لیکن اس سے نواز شریف کا چور ڈاکو ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ عدالت عظمیٰ تبصرے کرنے کے بجائے انتخابی اصلاحات ایکٹ کے بارے میں اپنا فیصلہ سنا دے۔ ججوں کے اس قسم کے تبصروں کا فائدہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو پہنچ رہا ہے اور میاں صاحب کے لیے عوام کی ہمدردیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کون چور ڈاکو ہے اور کس کو پارٹی کی سربراہی کا حق پہنچتا ہے، بہتر تھا کہ اس کا فیصلہ پارلیمان پر چھوڑ دیا جاتا۔ لیکن جو کام پارلیمان کو کرنا چاہیے وہ بھی عدالتوں کے سر ڈال دیا گیا ہے۔ فرض کیجیے اگر آئندہ عام انتخابات میں ایک بار پھر مسلم لیگ ن اکثریت حاصل کرلیتی ہے اور میاں نواز شریف کو پارلیمانی لیڈر منتخب کرلیتی ہے تو کیا عدالت مداخلت کرے گی اور کیا عوام کے فیصلے کے خلاف جائے گی؟ میاں نواز شریف جواباً گرہ لگاتے ہیں کہ پی سی او ججز مجھے پارٹی صدارت سے ہٹانا چاہتے ہیں اور عدالت کھل کر کہتی ہے کہ آئین کے محافظ کے طور پر یہ اس کی ذمے داری ہے۔ نواز شریف نے مزید فرمایا کہ ایک آمر سے حلف لے کر غداری کرنے والے جج اب ہمیں اخلاقیات کا درس دیں گے؟ نواز شریف کو بڑے عرصے بعد پی سی او ججوں کا خیال آیا اور ساڑھے چار سال تک وہ انہی ججوں سے اخلاقیات کا درس لیتے رہے۔ اب ایک نااہل شخص ججوں کو نااہل قرار دے رہا ہے لیکن میاں نواز شریف یہ بھول گئے کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے لیے میاں صاحب سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ایک طویل جلوس نکالا تھا اس وقت انہیں پی سی او اور اس کے تحت حلف اٹھانے والوں سے کوئی اختلاف نہیں تھا۔نااہل قرار دیے جانے پر انہیں سب کچھ یاد آرہا ہے۔ عدالت عظمیٰ پر حملہ بھی یاد ہوگا۔ گویا اصل مسئلہ ان کو نااہل قرار دیا جانا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو سب معاملات ٹھیک تھے۔ میاں صاحب نے مزید فرمایا کہ ججوں اور عمران خان کی زبان میں کیا فرق رہ گیا؟ بلاشبہ عمران خان بھی بولنے کی حد تک شائستگی کی تمام حدیں عبور کر جاتے ہیں لیکن خود میاں صاحب اور ان کا ٹولا جو زبان استعمال کررہا ہے کیا وہ عمران خان سے بڑھ کر نہیں۔ عدالت عظمیٰ کا یہ کہنا بجا ہے کہ ایسی صورت حال کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ ہماری گزارش بھی یہی ہے کہ یہ مناظرہ ختم کیا جائے، معزز ترین ججوں کو اپنا وقار ملحوظ رکھتے ہوئے تبصروں کے بجائے فیصلوں پر توجہ دینی چاہیے۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی اخلاقی سطح بہت بلند ہوتی ہے۔