مظفر اعجاز
کراچی میں ایک مرتبہ پھر دودھ کے نرخوں کے معاملے پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے، ظاہری طور پر حکومت یا کراچی کی انتظامیہ نرخوں کو کنٹرول کرکے درست اقدام کررہی ہے۔ مہنگائی کے مارے عوام کو یہ بات اچھی لگے گی کہ کراچی کی انتظامیہ نے کوئی حکم تو ہمارے حق میں دیا۔ لیکن یہ کراچی کے عوام کو سستے اور خالص دودھ سے محروم کرکے ڈبے میں بند نامعلوم پروڈکٹ کے حوالے کرنے کی سازش ہے۔ اس سازش میں ٹیٹرا پیک، ملٹی نیشنل کمپنیاں، مقامی کمپنیاں اور کراچی کی انتظامیہ شریک ہیں۔ یہ معاملہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ سمجھا جائے کہ جب ہر چیز کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے تو تین چار سال سے دودھ کی قیمتیں کیوں ایک جگہ اٹکی ہوئی یا اٹکائی ہوئی ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دو تین ماہ سے کراچی انتظامیہ اور ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے درمیان دودھ کے نئے نرخوں کے مسئلے پر مذاکرات ہورہے ہیں لیکن یہ ایسے مذاکرات ہیں کہ ان کا اجلاس نہیں ہورہا ہے۔ یعنی کمشنر کہتے ہیں کہ دسمبر میں اجلاس کریں گے۔ اجلاس نہ ہوا تو دسمبر کے آخری ہفتے میں اجلاس کا وعدہ کیا پھر بھول گئے۔ جنوری گزار دیا اور اب فروری میں بھینسوں پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کروادی۔ بھینسوں پر اس لیے کہ فارمرز تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ بھینسیں ہی بے چاری پھنس گئیں۔ دسمبر تک ہونے والی بات چیت اور حکومتی ارکان پر مشتمل کمپنی نے کراچی میں دودھ کی پیداواری لاگت کا تخمینہ لگایا تو ڈیری فارمرز کے مطابق وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ لاگت سو روپے ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں پیداواری لاگت کیوں بڑھ رہی ہے جب کہ ہر چیز کو ترقی مل رہی ہے۔ کیا حکومت خود ڈیری فارمنگ نہیں کرسکتی؟؟ کیا حکومت ڈیری فارمرز کی دو تین بنیادی ضرورتیں پوری نہیں کرسکتی۔ ڈیری فارمرز کہتے ہیں کہ ہمیں چارہ بیرون شہر سے لانا پڑتا ہے، جانور بیرون شہر سے لانے پڑتے ہیں، باڑوں کا کرایہ ملک کے دوسرے علاقوں سے زیادہ دینا پڑتا ہے اور بجلی کمرشل ریٹ پر ملتی ہے، ان میں سے کسی شعبے میں سبسڈی نہیں ملتی۔ کیا انتظامیہ کچھ سرکاری اراضی اور متعدد فارم ہاؤسز جو بے آباد پڑے ہیں وہاں کراچی کے ڈیری فارمرز کے لیے چارہ اگانے کا انتظام نہیں کرسکتی۔ دوسرے یہ کہ باڑوں کے کرایہ کے معاملے میں کوئی رعایتی کام کیا جاسکتا ہے، حکومت کی اپنی اراضی پڑی ہے وہاں یہ باڑے یا ڈیری فارمز منتقل کرادیے جائیں۔ پھر یہ کہ بجلی وغیرہ کے نرخ میں سبسڈی دلوائی جائے۔ اگر یہ سارے کام حکومت کرلے تو شاید دودھ کی پیداواری لاگت ازخود بہت کم ہوجائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتظامیہ کہیں کی بھی ہو، وہ کہیں کی نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ سوال تو ایک طرف رکھ دیں کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا۔
دوسری طرف جب حالات یہ ہوں کہ ڈیری فارمرز سے مذاکرات ہوں، ان کی پیداواری لاگت کو تسلیم کیا جائے لیکن ان کو قیمت بڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے تو کیا ہوگا۔ اس کا بہت آسان راستہ ڈیری فارمرز کے پاس ہے کہ 30 فی صد تک پانی ملادیں اور یہ کام حسب توفیق کیا جارہا ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق کراچی میں ایک دو فی صد سے زیادہ لوگ پانی کے علاوہ دوسرے کیمیکلز ملاتے ہیں ورنہ بیشتر ملاوٹی صرف پانی ملاتے ہیں۔ یہ بحث الگ ہے کہ الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر بڑے بڑے بین الاقوامی اور قومی اداروں کی جانب سے کھلے اور خالص دودھ کے بارے میں جو باتیں بتائی جاتی ہیں کہ ان میں مکھیاں بھنک رہی ہوتی ہیں اس کی ویڈیو فوٹیج بھی دکھائی جاتی ہے۔ اسی طرح بھارتی ویڈیوز کو بھی ملالیا جاتا ہے۔ غرض ایک زبزردست مہم کے تحت یہ بتایا جاتا ہے کہ کھلا خالص دودھ صحت کے لیے نہایت ہی مضر ہے۔ لیکن ڈبے میں کیا ہوتا ہے اس کی تہہ تک تو عدالت عظمیٰ بھی نہیں پہنچ سکی۔ بس وائٹنر کی بات ہوگی اب وہ مختلف برانڈز پر ٹی وائٹنرلکھ کر خوب دھندا کررہے ہیں لیکن قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ کی رپورٹ اور عدالتی کارروائی پر کسی کی نظر نہیں کہ اس ڈبے میں دودھ کے نام پر موجود شے کو محفوظ کرنے کے لیے فارمالین استعمال کیا جاتا ہے، جو خطرناک کیمیکل ہے، جب کہ کپڑے دھونے میں استعمال ہونے والا ڈیٹرجنٹ، شکر اور دیگر کیمیکل استعمال ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں نمونیا، دمہ وغیرہ ہوسکتے ہیں جب کہ کینسر کے خدشات بھی ہوتے ہیں۔ معروف وکیل محمد واوڈا نے عدالت کی مدد کرتے ہوئے رپورٹ دی تھی کہ ڈبے کے دودھ سے خواتین میں چھاتی کا سرطان اور ہارمونز کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ جب ہم نے ڈیری فارمرز کے کچھ متاثرین سے رابطہ کیا تو ان کا موقف تھا کہ پورے پاکستان میں کہیں بھی 100 روپے لاگت والا دودھ 85 روپے میں نہیں مل رہا۔ مزید یہ کہ اسلام آباد میں 125، کوئٹہ میں 125 روپے، پنڈی میں 90 سے 100 روپے فی لیٹر دودھ فروخت ہورہا ہے، صرف کراچی میں کیوں اتنا زور ہے کہ قیمت نہیں بڑھنے دیں گے۔ ہوسکتا ہے قارئین اس پر برہم ہوں کہ یہ قیمت بڑھانے کی وکالت کیوں کررہا ہے لیکن تھوڑی بہت معاشیات تو ہم سب نے پڑھی ہے اور مارکیٹ کی نفسیات بھی جانتے ہیں۔ آپ کپڑا لینے جائیں تو کوئی قیمت مقرر نہیں لیکن ایک ہی قسم کا کپڑا مختلف داموں میں فروخت ہورہا ہے اور زیادہ وہ والا فروخت ہوتا ہے جس کی قیمت مناسب اور معیار اچھا ہو یہ ممکن نہیں کہ ایک دکان پر 120 روپے میٹر کپڑا مل رہا ہو اور برابر میں 200 روپے میٹر۔ فرق صرف دس بیس روپے کا ہوگا، اگر حکومت فارمنگ، افزائش اور دودھ کی پیداوار میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے چارے کی فراہمی کا انتظام کرے تو قیمت شاید مزید کم ہوجائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انتظامیہ اور حکومت کہیں ہے ہی نہیں، یہی معاملہ دودھ کی قیمتوں کے ساتھ بھی ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کراچی جیسے شہر میں ملنے والے خالص دودھ کے بارے میں مہم چلائی جاتی ہے کہ یہاں مکھیاں بھنکتی ہیں تو ڈبہ پیک دودھ تیار کرنے والے اندرون سندھ سے دودھ لیتے ہیں وہاں نہ بجلی ہے نہ کراچی جیسے فارمز تو وہاں سے اندھیرے میں یہ کیا خرید کر لے جاتے ہیں اور جو کچھ ملاتے ہیں وہ تو سامنے ہے۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے۔ اگر حکومت شکر کی پیداوار اور کھپت کے مسئلے کے حل کے لیے ادارہ بناسکتی ہے تو شکر سے زیادہ کھپت اور پیداوار والی چیز اور تنازعات کا سبب بننے والی پروڈکٹ کے لیے کیوں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ شوگر ملز اور ارکان اسمبلی ایک ہی ٹولے کے پاس ہیں ان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ادارہ چاہیے تھا بنالیا، اب وڈیری فارمرز بھی اپنے ارکان اسمبلی میں بھیجیں تو کوئی ادارہ بنے گا۔