’’ایک ہاتھ میں نکاح ہے اور ایک ہاتھ میں طلاق‘‘
جہاد زندگانی میں ہیں یہ کپتان کی شمشیریں
کئی دن سے ہم عمران خان کی تیسری شادی پر لکھنا چاہ رہے تھے۔ یہ خیال خام ہی تھا کہ لودھراں کا ضمنی الیکشن بیچ میں آگیا۔
صد شکر جہانگیر ترین کے صاحب زادے لعنتی پارلیمنٹ میں جانے سے بچ گئے۔ یہ عمران خان ہی کا دیدہ ہے ایک لعنتی جگہ پر جانے کے لیے اتنی تگ ودو۔ عمران خان جس منزل کے مسافر ہیں وہ پارلیمنٹ سے ہوکر ہی گزرتی ہے۔ پارلیمنٹ کی رکنیت ہی وہ لباس ہے جو ایوان وزیراعظم کے در کھولتی ہے۔ جن دنوں عمران خان نے پارلیمنٹ کو لعنتی قرار دیا تھا غالب ہوتے تو مشورہ دیتے ’’کیوں ترک لباس کرتے ہو؟ پہننے کو تمہارے پاس ہے کیا جس کو اتارکر پھینکوگے؟‘‘۔ ایک صاحب ریگستان کی تپتی دھوپ میں پیاس سے بے حال راستہ بھٹک گئے۔ بہت دیر بھٹکنے کے بعد انہیں کوئی شخص نظر آیا جو میز پر ایک ہی رنگ کی ٹائیاں رکھے فروخت کررہا تھا۔ انہوں نے اس شخص سے کہا: ’’مجھے ایک گلاس پانی دے دو میں پیاس سے مررہا ہوں‘‘۔ اس شخص نے جواب دیا: ’’میرے پاس پانی نہیں ہے‘‘۔ پیاسے نے کہا: ’’مجھے بتاؤ پانی کہاں ملے گا‘‘۔ جواب ملا ’’یہاں سے سیدھے چلتے جاؤ آدھ گھنٹے کی مسافت پر تمہیں ایک ہوٹل ملے گا جہاں پانی دستیاب ہے لیکن کیا اس سے پہلے تم ایک ٹائی خریدنا پسند کرو گے۔ تمہارے لیے رعایتی قیمت سو روپے۔‘‘ پیاسے نے غصے سے جواب دیا: ’’اولالچی یہودی صفت دکاندار میں پیاس سے مررہا ہوں اور تم ایک مرتے ہوئے شخص سے کاروبار کرنا چاہتے ہو۔‘‘ دکاندار کو برا بھلا کہتا پیاسا بدقت چلتا ہوا پانی کی طلب میں آگے بڑھ گیا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ گرتا پڑتا واپس ٹائیاں بیچتے شخص کے پاس آیا اور گڑ گڑاتا ہوا بولا ’’خدا کے واسطے مجھے ایک ٹائی دے دو۔ وہ بغیر ٹائی لگائے مجھے ہوٹل میں گھسنے نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
نہ جانے کس نے لکھا ہے ’’مانگنا ایک قسم کی اخلاقی موت ہے۔‘‘ مانگنا ہی کیا ہر طرح کی اخلاقی موت جمہوریت کا حسن ہے۔ لودھراں میں شکست کے بعد کہا جارہا ہے کہ اس مقابلے کو پی ٹی آئی نے کچھ زیادہ ہی سہل لے لیا تھا۔ ووٹ مانگنے میں کچھ کسر رہ گئی۔ حالاں کہ ایسانہیں ہے۔ الیکشن سے دو دن پہلے تحریک انصاف نے لودھراں میں ایک بڑا جلسہ کیا تھا جس میں عمران خان سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے شرکت کی تھی۔ جن کی تقریروں میں سب کچھ تھا اتنا کہ اس سیٹ کے قدموں میں بس آکاش جھکانا رہ گیا تھا۔ پیسہ بھی ساون کے بادلوں کی طرح برسا۔ لیکن کسی کو یہ خبر نہیں تھی خود ن لیگ کو بھی نہیں کہ نواز شریف کی لہر چل پڑی ہے۔ عمران خان بڑے چوکنا، چوکس اور چست انسان ہیں۔ خیالات سے زیادہ عمل اور عمل سے زیادہ یوٹرن پر یقین رکھتے ہیں۔ کہا کرتے تھے ’’میرا خواب پاکستان سے موروثی سیاست کا خاتمہ ہے۔‘‘ لودھراں کے عوام نے عمران خان کا خواب سچ کر دکھایا۔ یوٹرن دیکھیے ایک طرف نواز شریف کی نااہلی ان کے لیے قابل گرفت ہے تو دوسری طرف وہ نا اہل جہانگیر ترین کو سینے سے بھی لگاتے ہیں۔ اسٹیٹس کو سیاست کے وہ بہت بڑے علم بردار تھے لیکن وقت آیا تو اپنی پارٹی کو لوٹوں کا واش روم بنا دیا۔ عمران خان کے یوٹرنز کی تفصیل دلربا اپنی جگہ۔ اس باب میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن آج کا المیہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین کے بیٹے کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کو علی ترین کے ساتھ زیادتی کا نوٹس لینا چاہیے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی ایک خوبی جس کا کم ہی اعتراف کیا جاتا ہے وہ ان کی احتجاجی سیاست میں مہارت ہے۔ نواز شریف کا یہ بیانیہ کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے روز بروز قوت پکڑتا جارہا ہے۔ وکلا سے لے کر سیاستدانوں تک یہ بات ایک تکرار کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ 184-3 کوئی واضح قانون نہیں ہے۔ اس کی ایسی تشریح کی گئی کہ نواز شریف نااہل قرار پائے۔ دستور کی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ عدالت عظمیٰ ابتدائی عدالت کے طور پرکسی مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کسی رکن اسمبلی کو نااہل قرار دے سکتی ہے۔ پھر جو سزادی گئی اس کے خلاف کوئی اپیل بھی نہیں ہوسکتی۔ مختصراً یہ کہ 184/3 پر اختلاف رہے گا۔ یہ مقدمہ بھی عدالت عظمیٰ کے بعض دیگر فیصلوں کی طرح تنقید کی زد میں رہے گا۔ نواز شریف جی ٹی روڈ سے جو بیانیہ لے کر چلے ہیں اسے حقیقت کہا جائے یا افسانہ بہرحال عوام میں اسے سند قبولیت مل رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ضمنی الیکشن شمالی پنجاب میں ہوں، وسطی پنجاب یا پھر جنوبی پنجاب مسلم لیگ ن کو کامیابی ملی ہے۔ نااہل قرار دیے جانے کے بعد سے نواز شریف اور مریم صفدر مستقل سڑکوں پر ہیں۔ وہ اپنے ووٹروں پر اثر انداز ہونے میں کامیاب محسوس ہورہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم پارٹی کو یکجا رکھنے میں کا میاب رہے ہیں۔ لودھراں کے الیکشن کے نتائج کے بعد مسلم لیگ ن کی قوت میں مزید اضافہ ہوگا۔ پشاور کا جلسہ اور اب لودھراں کے ضمنی الیکشن اس بات کا اشارہ ہیں کہ نواز شریف موافق لہر چل پڑی ہے۔ میڈیا اور عوام میں حد سے بڑھی ہوئی نواز شریف مخالف پروپیگنڈا مہم نے عوام میں الٹے اثرات مرتب کیے ہیں۔ عمران خان کے لیے احتجاجی نواز شریف اقتدار میں رہنے والے نواز شریف سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ عمران خان جتنا جلد ممکن ہو عدلیہ سے نواز شریف کو اہل قرار دینے کی اپیل کریں۔
عمران خان نواز شریف کے لیے عوام میں نفرت پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ نواز شریف کی ذات کے خلاف کوئی موثر بیانیہ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور نہ ہی نواز شریف کی ذات کے خلاف کوئی ٹھوس اور موثر مہم چلاسکے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف انہیں جو بھی کامیابیاں ملی ہیں عدلیہ کی مرہون منت ہیں۔ جب کہ خود عمران کی ذات کئی حوالوں سے تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ تحریک انصاف کی تنظیم سازی ان کے لیے ایک مستقل درد سر ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود تحریک انصاف ہی مسلم لیگ ن کی واحد مد مقابل ہے۔ لودھراں کی شکست ایک بڑا اپ سیٹ ہے لیکن بہر حال یہ کوئی گیم چینجر ناکامی نہیں ہے۔
ہم نواز شریف کے مداح ہیں اور نہ عمران خان اور عدالت عظمیٰ کے ناقد۔ یہ محض ایک سیاسی تجزیہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالت عظمیٰ سماج کی اصلاح کے لیے کوشاں ہے۔ سیاست اور کرپشن کا گند صاف کرنا چاہتی ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جس نظام میں عدالت عظمیٰ اور ریاست کے دیگر ادارے کام کررہے ہیں وہ بجائے خود کرپشن کو فروغ دیتا ہے۔ اس نظام میں سیاست اور سیاست دانوں کو وہ کھلی چھوٹ ہے کہ آپ ایک لاکھ ووٹ لے کر آجاؤ، ایوان اقتدار میں پہنچ جاؤ پھر جو کچھ بھی کرتے پھرو اسے سیاسی انتقام کہہ کر عوام میں با آسانی رد کیا جاسکتا ہے۔ بھتے وصول کرو، بوریوں میں لاشیں بند کرو، شہروں کو آگ اور خون میں نہلا دو سب گوارا سب جائز۔ ماڈل ٹاؤن میں 14بندے ماردو آپ بری الذ مہ ہیں۔ ملک کے 200ارب روپے لوٹ کر باہر بھیج دو آپ کا حق ہے کیوں کہ آپ عوام کے نمائندے ہو۔ اس نظام میں عوام کو عدالت عظمیٰ کو سب کو بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور با آسانی بنایا جاسکتا ہے سب کچھ لوٹ کر بھی آپ ایسے پاک صاف ہو سکتے ہیں جیسے زمزم سے نہائے ہوئے ہیں بس ووٹ کا تقدس پامال نہیں ہونا چاہیے ووٹ اسے دینا ہے جو زیادہ باریکی اور مہارت سے کام دکھا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا بھر میں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ حل صرف خلافت راشدہ کے نظام میں ہے۔ خلفائے راشدین کے طرز عمل میں ہے۔