رشوت خور جج، برطرفی کافی نہیں 

448

عدالت عالیہ اسلام آباد نے ایڈیشنل سیشن جج پرویز القادر میمن کو رشوت لینے پر برطرف کر دیا ہے۔ جج نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کے مقدمے میں ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب شیخ سے 50لاکھ روپے رشوت لے کر بری کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق یہ رقم دو کروڑ روپے تھی اور باقی ڈیڑھ کروڑ کی ادائیگی ملک سے باہر ہونی تھی۔ جرم ثابت ہوا اور مرتشی جج کو برطرف بھی کردیا گیا۔ لیکن کیا اتنا ہی کافی ہے۔ یہ تو ایک معاملہ ہے جس میں عدلیہ کو بے توقیر کرنے والا جج گرفت میں آگیا۔ لیکن کیا ایسے اور متعدد معاملات نہیں ہوں گے جن میں پرویز میمن نے رشوت لے کر فیصلے دیے ہوں گے۔ اس کے تمام فیصلوں کا جائزہ بھی لیا جانا چاہیے اور اس کی برطرفی کافی نہیں بلکہ اس پر رشوت ستانی، عدلیہ کو بدنام کرنے اور انصاف کا خون کرنے کے مقدمات عاید کر کے ایسی سزا دی جانی چاہیے جو دوسروں کے لیے مثال ہو۔ ایسے ہی ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’ وکیل کرنے کے بجائے جج کرلیا‘‘۔ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جج رشوت لے کر فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسے ججوں کی تعداد ممکن ہے کہ آٹے میں نمک کے برابر ہو لیکن ایک مچھلی سارے تالاب کو گندا کرتی ہے اور اس کی واضح مثال یہ پرویز میمن ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کی وجہ سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے لیکن رشوت خور جج اور سرکاری حکام کیے کرائے پر پانی پھیر رہے ہیں۔ مذکورہ معاملے میں رشوت دینے والا بھی برابر کا ذمے دار ہے اور ایک حدیث کے مطابق رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں چنانچہ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کے ملزم شعیب شیخ نے عدلیہ کو بدعنوان بنانے (کرپٹ کرنے) کی کوشش کی ہے اس پر اسے بھی سخت سزا ملنی چاہیے اور اس کی ضمانت منسوخ ہوسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پرویز میمن اپنے متنازع فیصلوں پر کچھ عرصے سے اعلیٰ عدلیہ کی نگرانی میں تھا۔ یعنی وہ پرانا پاپی ہے۔ اس نے 50لاکھ روپے رشوت لینے کا اعتراف کر لیا ہے۔ ایسی صورت میں پرویز میمن کے تمام اثاثے اور جائداد ضبط کر لینی چاہیے کیوں کہ یہ سب رشوت کی کمائی سے بنی ہوگی۔ ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام سرکاری ملازمین اور عوامی نمائندہ کہلانے والے افراد کا رہن سہن ان کی آمدنی کے مطابق نہیں تو یقیناًکہیں گڑ بڑ ہے۔ لیکن اس کی نگرانی کون کرے؟ ایک جج اور تھانے دار کے ٹھاٹ باٹ سب کچھ بتا دیں گے۔