بہادر بچہ راؤ انوار!

456

خدشہ یہی تھا کہ نہتے لوگوں کو قتل کرنے اور اسے مقابلہ قرار دینے والا جی دار راؤ انوار عدالت کا سامنا نہیں کرسکے گا۔ وہ چوہوں کی طرح چھپتا پھر رہا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس کو اپنا ’’بہادر بچہ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ اس پر وزیر اعلیٰ سندھ کا راؤ انوار کے معاملے سے لاتعلقی کا اظہار سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے اصل سربراہ تو آصف زرداری ہی ہیں ۔ پھر سندھ حکومت میں کس کی جرأت ہے کہ زرداری کے بہادر بچے کی گرفتاری میں مدد کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سندھ حکومت زرداری کے اس لے پالک بہادر بچے کے خلاف ثبوتوں کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالے۔ آصف زرداری کا اپنے بہادر بچے کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم سے لڑنے کے باوجودبچ رہے۔ 1992ء میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہواتو اس وقت راؤ انوار ایک جونیئر افسر تھے۔ آصف زرداری کے بقول اس آپریشن میں 54 تھانے داروں نے حصہ لیا جن میں سے 53مارے گئے۔ راؤ انوار کے بچ جانے میں کمال ان کی بہادری کا نہیں بزدلی کا تھا۔ وہ ڈر کر اسلام آباد فرار ہوگئے تھے۔ اور ایک بار پھر مفرور ہیں۔ آصف زرداری کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آپریشن میں حصہ لینے والے 53تھانے داروں کو ایم کیو ایم نے مروایا۔ اس میں کوئی شبہ بھی نہیں لیکن پھر یہی ایم کیو ایم پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کی حلیف رہی، مرکز میں بھی اور سندھ حکومت میں بھی۔ اس پشت پناہی نے ہی ایم کیو ایم کے قاتل دستوں کے حوصلے بلند کیے۔ ایسی ہی پشت پناہی راؤ انوار کو بھی حاصل رہی اور وہ دوسروں کے مذموم مقاصد بھی پورے کرتے رہے۔ آصف زرداری نے اپنے انٹرویو میں راؤ انوار کی حمایت میں مزید کہا کہ ’’نقیب اللہ محسود کے کیس کو میڈیا نے ہوا دی ہے، معاملے کا پھر سے جائزہ لینا چاہیے اور سب کو پیچھے ہٹ کر جائزہ لینا چاہیے‘‘۔ شاید اس سے زیادہ کھل کر طرف داری نہیں ہوسکتی تھی۔ انہوں نے جو کچھ کہا اس کا واضح مفہوم ہے کہ نقیب اللہ کا ماورائے عدالت قتل محض ذرائع ابلاغ کی کہانیاں ہیں جنہوں نے اس معاملے کو ہوا دی۔ اب زرداری صاحب اس کی ہوا نکالیں گے۔ ان کا مشورہ ہے کہ سب پیچھے ہٹ کر معاملے کا جائزہ لیں۔ یہ سب کون ہیں اور پیپلز پارٹی کے رہنما کس کو پیچھے ہٹنے کی ہدایت کررہے ہیں ۔ کیا بہتر نہ تھا کہ وہ اپنے بہادر بچے کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کرتے اور اسے یقین دلاتے کہ اس کے لیے بہترین وکیل کھڑے کردیے جائیں گے۔ لیکن یقین دہانیوں اور تحفظ فراہم کرنے کے احکامات کے باوجود یہ بہادر بچہ عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ عدالت عظمیٰ نے تو اس کی حفاظتی ضمانت بھی منظور کرلی تھی اور اس کی منشا کے مطابق جے آئی ٹی (مشترکہ تحقیقاتی ٹیم) بنانے کا اعلان بھی کردیا تھا۔ اب اس پر توہین عدالت کا الزام بھی آگیا ہے۔ عدالت نے اس کے کھاتے منجمد کر کے گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن راؤ انوار نے تو اپنے اثاثے دبئی میں محفوظ کر رکھے ہوں گے جہاں ان کے اہل خانہ ہیں اور وہ سال میں کئی بار وہاں جاتے رہے ہیں ۔ اہم سوال یہی ہے کہ آخر راؤ انوار کہاں اور کس کے پاس چھپے ہوئے ہیں کہ تمام خفیہ ادارے انہیں تلاش نہیں کر پا رہے۔ تو کیا واقعی وہ کسی مقتدر شخصیت یا ادارے کی تحویل میں ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پکڑ میں نہ آئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا بجا ہے کہ راؤ انوار نے پیش نہ ہو کر ایک اچھا موقع گنوا دیا۔ لیکن اس شاطر شخص کو یہ اندازہ تو ہوگا کہ پیش ہوا تو عدالت ہی سے گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس دوران میں راؤ انوار کے جعلی مقابلوں کی اور داستانیں بھی سامنے آرہی ہیں ۔ کسی کو محض اپنی گاڑی کے سامنے گاڑی بھگانے پر ہلاک کروا دیا۔ لیکن ایک سوال اور بہت اہم سوال یہ ہے کہ راؤ انوار تو برسوں سے ایسے الزامات کی زد میں تھا تو اس کے خلاف کبھی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ کچھ پولیس افسران جو آج اس کا پول کھول رہے ہیں انہیں یہ جرأت پہلے کیوں نہ ہوئی اور راؤ انوار کے ایسے احکامات ماننے سے انکار کیوں نہ کیا۔ اس کی ذمے داری حکومت سندھ اور اس کی وزارت داخلہ پر تو عاید ہوتی ہی ہے لیکن کسی آئی جی اور ڈی آئی جی نے اس کا محاسبہ کیوں نہیں کیا۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سب کے سب راؤ انوار کے سہولت کارتھے یا وہ ایسا جن تھا کہ اس سے خوف زدہ رہتے تھے۔ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اس حوالے سے کچھ فرمائیں۔ ابھی تو اس سوال کا جواب بھی نہیں ملا کہ جب اس کا جرم سامنے آگیا تھا تو وہ اسلام آباد تک کیسے پہنچ گیا۔ ذرا سی چوک ہو جاتی تو وہ دبئی میں بیٹھا ہوتا۔ ایسی چوک کسی بھی وقت ہوسکتی ہے اسی لیے زرداری صاحب کا اصرار ہے کہ پورے معاملے کا ایک بار پھر اور ذرا ہٹ کے جائزہ لیا جائے۔ آصف زرداری کی طرف سے مفرور راؤ انوار کو بہادر بچہ کہنے پر کسی کے توجہ دلانے کے بعد انہوں نے اپنے الفاظ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھ سے غلط الفاظ ادا ہوگئے۔ اگر اس سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو اس پر افسوس ہے۔ زرداری صاحب! کسی کی نہیں ان سب کی دل آزاری ہوئی ہے جو راؤ انوار کے مظالم کا شکار ہوئے اور انصاف کے طلب گار ہیں۔