وی آئی پی قیدیوں کو جیل بھیجنے کا حکم

218

عدالت عظمیٰ کے حکم پر کراچی جیل سے علاج کے نام پر اسپتال پہنچنے والے قیدیوں کو واپس جیل بھجوادیاگیا۔ ہفتے کے روز عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار نے شرجیل میمن کی جیل سے اسپتال منتقلی کیس کی سماعت کے دوران حکم دیا کہ جتنے بھی قیدی جیل سے اسپتال آگئے ہیں انہیں واپس جیل بھیجا جائے۔ شرجیل میمن کا صرف طبی معائنہ کرانے کی اجازت دی گئی تھی اسپتال منتقلی کی نہیں اسی طرح جس شخص کو کال کوٹھڑی میں ہونا چاہیے تھا وہ بھی اسپتال میں ہے۔ چیف جسٹس نے جناح اسپتال کا بھی دورہ کیا اور وہاں گندگی اور بدبو پر برہمی کا اظہار کیا۔ ان سے مریضوں نے بھی بہت شکایات کیں۔ چیف جسٹس کے دورۂ کراچی سے بہت سے مسائل از سر نو سامنے آگئے۔ جناح اسپتال میں بد انتظامی، گندگی اور مریضوں کی حالت زار اپنی جگہ انہوں نے ڈبہ پیک دودھ کمپنیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور نور پور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کی جانب سے چیمبر تک پہنچنے کی کوشش پر ان کو بھی جھاڑ پلادی۔ آج کل ڈبوں میں دودھ کے نام پر الم غلم اشیا ملاکر فروخت کرنے والوں کو چیف جسٹس نے گرفت میں لیا ہوا ہے یہ لوگ ادھر ادھر سے اسناد لاکر اخباری اشتہارات کے ذریعے اور ٹی وی کے ذریعے اپنی مصنوعات کی تشہیر کراتے پھر رہے ہیں جب کہ خالص دودھ کو بدنام کیا جارہاہے۔ بہر حال چیف جسٹس کے فیصلے کے نتیجے میں کرپشن اور قتل کے مقدمات میں قید افراد کو دو بارہ جیل بھیج دیا گیا ہے لیکن چیف جسٹس صاحب ایک دورہ جیل کا بھی کرلیں تو پتا چل جائے گا کہ جیل بھی ان قیدیوں کے لیے وی آئی پی سہولیات فراہم کررہاہے یہ صرف آج کل کے دو چار قیدی نہیں ہیں خود جناب آصف زرداری کی وی آئی پی جیل اور اس کی کہانیاں بھی سب کے سامنے ہیں۔ جس طرح چیف جسٹس نے غیر مشروط معافی ختم کی ہے اسی طرح قید کا حکم سنتے ہی اسپتال بھاگنے کا سلسلہ بھی ختم کرادیں۔اور سینٹرل جیل کراچی کے سامنے سے روز رات کو سڑک اور پل بند کرنے کا سلسلہ بھی۔