زینب کیس۔ سزا تو ہوگئی، عبرت بھی ضروری ہے

608

بظاہر انصاف ہوگیا ہے۔ اگرچہ زینب واپس نہیں آئے گی والدین کو بیٹی نہیں ملے گی لیکن مجرم کو سزا ملنابھی پاکستان جیسے ملک میں بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے عدالت عظمیٰ نے تیزی سے سماعت کی گواہ بلائے جرح کی اور زینب کے قاتل کو چار مرتبہ سزائے موت کا حکم سنایا۔ ظاہری بات ہے سزائے موت تو ایک ہی کافی ہوگی اس کے بعد تو وہ موجود نہیں رہے گا لیکن اس کے جرائم کے اعتبار سے 4 مرتبہ سزائے موت۔ 32 لاکھ جرمانہ اور عمر قید سنائی گئی ہے۔ عدالت نے اس مجرم کو فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل اور عدالت عظمیٰ میں جانے کا حق دیا ہے۔ جب کہ رحم کی اپیل کا بھی حق ہے۔ اس اعتبار سے یہ مجرم ان ملزموں سے زیادہ مراعات کا حق دار ہے جنہیں پاکستانی خفیہ ایجنسیاں اور پولیس اغوا کرکے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلواکر موت کی سزائیں دلواتی ہیں۔ انہیں تو براہ راست مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ مقدمہ کا اتنا اہتمام بھی نہیں کیا جاتا کہ گواہوں اور جرح کا کوئی نظام بنے۔ پھر بھی اس وقت موازنے والی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا اس سزائے موت سے ایسے جرائم رک جائیں گے؟ اس کا جواب وہی ہے جو پہلے روز سے دیا جارہاہے۔ ایسے جرائم اور تمام جرائم میں اسلامی سزائیں دی جائیں لیکن اسلام صرف سزاؤں کے لیے نہیں آیا ۔جب ایسے واقعات ہوتے ہیں تو لوگوں کو اسلامی سزائیں یاد آتی ہیں اصل بات اسلامی قوانین ہیں جو ایسے حالات بھی پیدا نہیں ہونے دیتے۔ ایک اسلامی معاشرے میں عمران جیسے لوگوں کو زینب کی طرح کسی بچی کو ساتھ لے جانے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی زینب اس عمر میں اس طرح گھومتی پھرتی کہ کسی درندے کے ہاتھ چڑھ جائے۔ بہر حال اب حکومت کے حلقوں میں بھی قاتل کو سرعام پھانسی دینے کی گفتگو ہونے لگی ہے۔ یہ لوگ تو وہ ہیں جو اسلامی سزاؤں کو درندگی کہتے تھے یا اسے درندگی کہنے والی عاصمہ جہانگیر کی تعریفیں کررہے ہیں۔ اگرچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس حوالے سے رہنمائی دے دی ہے کہ مجرم کو سرعام پھانسی دی جاسکتی ہے لیکن قرآن و سنت سے براہ راست رہنمائی لی جاتی تو زیادہ اچھا تھا۔ جو زیادہ واضح طور پر ایسے جرائم کے مجرموں کو سرعام سزائے موت دینے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کا حکم دیتا ہے۔ چونکہ ہمارے حکمران اسلام کا نام لیتے ہوئے ڈر رہے ہیں اس لیے پہلے جرم کی سنگینی کی تہذیب یافتہ معاشرے کے تناظر میں تشہیر کی گئی پھر اس کی مثالی سزا کا مطالبہ بھی آیا حقیقتاً دونوں باتیں ایک اسلامی معاشرے اور حکومت میں ممکن ہیں۔ زینب کے والدین نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ قاتل کو سرعام پھانسی دی جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل تجویز دے چکی ۔ اب قانونی پیچیدگیاں آڑے ہیں جنہیں دور کرنے کا عندیہ پراسیکیوٹر نے دے دیا ہے کہ سرعام پھانسی کے لیے پنجاب حکومت کو تجاویز بھیجیں گے جہاں جرم ہو سزا وہاں دی جاسکتی ہے۔ اب میاں شہباز کی ہمت کی بات ہے اگر عمران جیسے دو چار اور مجرموں کو اسی طرح سرعام سزا دی جانے لگے اور ہزاروں مسلمان موقع پر موجود ہوں تو قرآن و سنت کا منشا پورا ہوتا ہے اس سے عبرت ہوتی ہے اور جب لوگ عبرت پکڑیں گے تو ایسے واقعات کم سے کم ہوں گے۔ شر انگیز اور مجرم ذہنیت کے لوگ تو پھر بھی ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن سرعام سزائے موت سے معاشرے پر اثرات ہوتے ہیں۔ عمران کے جرم کی مناسبت سے تو اسے (رجم) سنگسار کرنا چاہیے تھا یہ سزا ان درندوں کے لیے عبرت کا سامان لیے ہوئے ہوگی۔ یہ تو انگریز کا قانون ہے کہ عمر قید سزا دی جائے اور جو رات دن ملاکر سات سال میں پوری ہوجائے۔ معاشرے میں جانوروں وا لے جرائم کرنے والے سزا پانے کے بعد جیل میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرکے یہ سزا نصف کرالیتے ہیں اور یوں تین چار سال میں ایک جانور پاک صاف ہوکر پھر ان ہی لوگوں میں جاکھڑا ہوتا ہے جہاں جرم کیا تھا۔ کسی نے آج تک نہیں پوچھا کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی سزاؤں سے خوف کا یہی نتیجہ نکلتا تھا جو آج ہے۔ یعنی معاشرے میں اس حد تک بگاڑ آگیا ہے کہ اب سات سال کی بچی بھی محفوظ نہیں اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور معا شرے کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں کہ بچیوں کی عزت محفوظ رہے۔ کیا حکومت ٹی وی اور اخبارات کو بے ہودگی سے روک سکتی ہے صرف ویلنٹائن ڈے پر ٹی وی چینلز کو پیمرا کے ذریعے روک دینے سے جو امن و سکون 14 اور 15 فروری کو رہا وہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا لہٰذا اگر حکومت اسلامی احکامات کی روشنی میں فیصلے کرے اور قانون بنائے تو معاشرے کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ ٹی وی چینلز بھی حکومت کے کنٹرول میں ہوتے ہیں ان کو پاکستانی عوام کے مذہبی اعتقادات اور اقدار کے خلاف پروگرام بنانے اور چلانے سے روکا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کو صحیح تعلیم و تربیت دیں۔ اپنی بچیوں کا لباس ان کی جسمانی کیفیت وغیرہ یہ سب غور کرنے کے امور ہیں یہ سب مل کر خرابی کو جنم دینے والی چیزیں ہیں۔ میڈیا اخلاقی تربیت کی کمی اور حکمرانوں کی بے حسی، ایک اور بات اﷲ کرے یہ مقدمہ اور اس کی سزا درست ہو دس پندرہ سال بعد کوئی یہ نہ کہہ رہا ہو کہ فیصلہ غلط تھا۔ مجرم وہ نہیں کوئی اور تھا۔ یہ مفروضہ نہیں پاکستانی عدالتوں میں ایسا ہوچکا ہے۔