پی ایس او کامالی بحران ,عدم ادائیگی کی رقم 334 ارب روپے ہو گئی

390

کراچی:  واجبات کی عدم ادائیگی اوروفاقی حکومت کی جانب سے پیسے دینے سے صاف انکار کے باعث پاکستان اسٹیٹ آئل(پی ایس او) کامالی بحران سنگین ہوگیاہے۔ ذرائع کے مطابق سرکاری ونجی بجلی گھروں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے پی ایس او کے واجبات کی مجموعی رقم 334 ارب روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔

سرکاری ونجی بجلی گھر پیسے دینے کانام نہیں لے رہے جبکہ حکومت نے بھی مالی خسارے کومحدود کرنے کی غرض سے پی ایس اور کو کوئی بڑی رقم دینے سے معذرت کرلی ہے تاہم حکومت فارن ایکس چینج 25اسکیم کے تحت زرمبادلہ کابندوبست کرکے پی ایس او کی مدد کرتی رہی ہے اور اس انتظام کے تحت 60کروڑ ڈالر کے قرضوں کی لمٹ بھی ختم ہوچکی ہے‘ پی ایس او انتظامیہ نے حکومت سے زرمبادلہ میں قرضوں کی حد بڑھانے کی استدعا کی ہے۔

اس ضمن میں پی ایس او کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ پی ایس او کے مجموعی334 ارب روپے کے قابل وصول واجبات میں سے 285ارب روپے پاور سیکٹر کے ہیں جس میں حب پاور کمپنی(حبکو) کے 86ارب روپے اور کیپکو کے 43ارب روپے شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری ونجلی بجلی گھروں کی بدانتظامی اور ادائیگیوں سے گریز نے پی ایس او کی مشکلات کوکئی گنا بڑھادیاہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز(پی آئی اے) میں بھی پی ایس او کے 16ارب روپے پھنسے ہوئے ہیں جبکہ سوئی نادرن گیس پائپ لائن کمپنی(ایس این جی پی ایل) کو بھی پی ایس او کے کئی ارب روپے دینے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس این جی پی ایل بھی مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے اور اس کی مالی حالت پتلی ہے۔ ایس این جی پی ایل کو ایل این جی سے متعلق واجبات کی وصولی میں شدید مشکلات کاسامناہے۔ انہوں نے کہا کہ پیسے نہ ملنے سے پی ایس او اپنے واجب الادا خطیر رقوم کی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس کے قابل وصول واجبات ملیں گے تو وہ آگے اپنے واجب الاد ا بلز کی ادائیگی کرسکے گی۔ انہوں نے بتایا کہ پی ایس او کومجموعی طور پر84 ارب روپے کی واجبات کی ادائیگی کرنی ہے جن میں سے 70ارب روپے پیٹرولیم مصنوعات کے سپلائزر اور15اربروپے کے لگ بھگ مقامی آئل ریفائنر یز کودینے ہیں۔قابل وصول واجبات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ334ارب روپے کی قابل وصول واجبات میں سے بیشتر رقم سرکاری اداروں کے ذمے ہے اور ہم حکومت سے 100 ارب روپے جاری کرانے کیلئے بھاگ بھاگ کر تھک چکے ہیں جس کے ذمے 14اکتوبر2017 سے302ارب روپے واجب الادا ہیں۔