محبت میں وفاداری سے بچیے

389

ندا فاصلی کے چند اشعار ملا حظہ فرمائیے
محبت میں وفاداری سے بچیے
جہاں تک ہو اداکاری سے بچیے
ہر اک صورت بھلی لگتی ہے کچھ دن
لہو کی شعبدہ کاری سے بچیے
شرافت آدمیت درد مندی
بڑے شہروں میں بیماری سے بچیے
یہ اشعار امریکا کے حسب حال ہیں۔ اشعار کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ حضور ممالک کے مابین دوستی یا وفاداری کا رشتہ نہیں ہوتا۔ مفادات ہوتے ہیں جو ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لے آتے ہیں۔ مفادات ختم، تعلقات ختم۔ تو کون، میں کون۔ چلیے تسلیم۔ ایسا ہی ہوتا ہوگا لیکن ایسا تو نہیں ہوتا ہوگا کہ مفادات ختم ہوتے ہی دوست کے درپے ہوگئے۔ ہر طرح سے دوست کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہوگئے۔ یہ بات ہم اس تناظر میں کہہ رہے ہیں کہ 18فروری کو پیرس میں 35رکنی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس ہوا ہے۔ یہ ادارہ اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے انسداد کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ 1979 میں جی سیون ممالک نے اینٹی منی لانڈرنگ کے لیے یہ ادارہ قائم کیا تھا تاہم نائن الیون کے بعد انسداد مالی اعانت برائے دہشت گردی کو بھی اس میں شامل کردیا گیا۔ امریکا اور برطانیہ نے اس ادارے کو ایک خط لکھا ہے جس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں واچ لسٹ میں رکھنے کے لیے کہا گیا ہے۔ جرمنی اور فرانس بھی اس سلسلے میں امریکا اور برطانیہ کے ہم نوا ہیں۔ اس سے قبل پاکستان کو 2013 میں بھی واچ لسٹ میں ڈالا گیا تھا لیکن پاکستان کی جانب سے اُٹھائے گئے کچھ اقدامات کے بعد 2015 میں پاکستان کو امریکا اور بھارت کی مخالفت کے باوجود اس لسٹ سے نکال دیا گیا تھا لیکن ہر سال اس حوالے سے ایک رپورٹ جمع کروانے کا پابند کردیا گیا تھا۔ پاکستان نے 2016 اور 2017 میں یہ رپورٹس جمع کروائیں۔ اس مرحلے پر ایشیا پیسیفک گروپ نے اضافی رپورٹ جمع کروانے کی قدغن پر پابندی کی سفارش کی تھی۔ امریکا نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ پاکستان اور ایشیا پسیفیک گروپ نے 2018 کے لیے رپورٹ حتمی شکل دے کر آگے جمع کروانی تھی لیکن اس سے پہلے ہی اس رپورٹ کو خفیہ طور پر حاصل کرکے امریکا نے پاکستان کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں واچ لسٹ میں ڈالنے کی مہم شروع کردی۔
پاکستان کو بعض ممالک نے امریکا اور برطانیہ کی نیت سے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔ امریکا حافظ سعید کو بہانہ بناکرپاکستان کو ٹارگٹ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1267 قرارداد کے تحت حافظ سعید کے سلسلے میں اپنی ذمے داریاں ادا کررہا ہے۔ اس قرارداد کے مطابق اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل افراد کے اکاؤنٹس، بین الاقوامی سفر، اسلحہ اٹھانے یا خرید وفروخت پر پابندی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ تاہم ان افراد کو ملک کے اندر نقل وحرکت اور ملکی قوانین کے تحت اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک مانیٹرنگ گروپ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور پاکستان کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ لیکن امریکا حافظ سعید کے معاملے میں اس سے سوا چاہتا ہے۔ جس کی نہ تو اقوام متحدہ کی قرار داد میں سفارش ہے اور نہ ہی ملکی قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں۔ امریکا کے اس دباؤ کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے امریکا کی خوشنودی کے لیے صدر مملکت نے 9فروری 2018 کو دہشت گردی کے ایکٹ 1997 میں ایک آرڈی ننس کے ذریعے خاموشی سے نئے قوانین متعارف کروائے ہیں۔ جن سے حافظ سعید سے منسلک جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد تنظیمیں الاختر ٹرسٹ اور الرشید ٹرسٹ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ لیکن امریکا اس پر بھی مطمئن نہیں ہے۔
ہماری سیاسی اور فوجی قیادت عر صے سے امریکی مطالبات کے آگے سجدہ ریز ہے۔ امریکی مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ہم نے افغان بھائیوں کے قتل عام میں امریکا کی ہر ممکن اور ہر طرح مدد کی اور آج بھی کررہے ہیں۔ آج ہم بے دریغ جہاد کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپ رہے ہیں۔ امریکا پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت سے یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ ان تنظیموں کو کام کرنے سے روکیں جو کشمیر میں جہاد کی حمایت کرتی ہیں چاہے وہ خیراتی ادارے ہی کیوں نہ ہوں جو امدادی سامان فراہم کرتے ہیں۔ امریکا عموماً پاکستان کے حکمرانوں کو براہ راست احکامات دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جہاد کشمیر سے پاکستان کے عوام کی جذباتی وابستگی ہے اور اہل کشمیر کے خلاف اٹھایا گیا کوئی بھی اقدام پاکستان میں اس کے ایجنٹ حکمرانوں اور خود امریکا کے لیے نفرت کا باعث بنے گا اس لیے ایسے مواقع پر وہ اپنی لونڈی اقوام متحدہ کو آگے کردیتا ہے تاکہ اس کے ایجنٹ پاکستان کے عوام کو یہ دھوکا دے سکیں کہ وہ امریکا کے نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کررہے ہیں۔
ہم کس منہ سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم کشمیر میں اپنے ان مجاہد بھائیوں سے مخلص ہیں جو سات لاکھ سے زاید ہر طرح کے اسلحہ سے لیس بھارتی فوجوں کا مقابلہ کرہے ہیں۔ کتنی ہی بہنیں ہیں بھارتی درندے جن کی عصمت لوٹ رہے ہیں۔ لاکھوں کشمیری خواتین ہیں جنہوں نے بیوگی کی سیاہ چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ لاکھوں نوجوان ہیں جو بھارتی اذیت کیمپوں میں تشدد اور اذیت کا شکار تڑپ رہے ہیں۔ ہزاروں نوجوان ہیں جو پیلٹ گنوں کے چھروں سے اپنی آنکھیں گنوا چکے ہیں۔ لیکن ہماری سیاسی اور فوجی قیادت امریکی مطالبات مان کر اس کے فطری اتحادی بھارت کو مضبوط کررہی ہیں تاکہ خطے میں بھارت کو بالادستی حاصل ہوسکے۔ امریکا اور بھارت کے خلاف ان کے جذباتی بیانات ڈرامے بازی اور عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہیں۔
امریکا کی وعدہ خلافیاں اور پاکستان سے کھلی دشمنی نئی بات نہیں۔ ہم بارہا اس کے مظاہر دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کے عوام بھارت سے بڑھ کر امریکا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں لیکن یہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت ہے جو پاکستان میں بطور ایجنٹ امریکی مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی ترقیوں اور اقتدار کی بقا امریکا سے وفاداری سے مربوط سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے حکمران بظاہر امریکا سے ناراضی کا اظہار کرتے اور اس کی مذمت کرتے نظر آتے ہیں لیکن اندر ہی اندر امریکا سے تعاون کا کوئی گوشہ خالی نہیں چھوڑتے۔