نادرا کی آئین شکنی

355

اب جب کہ ملک میں انتخابات بھی سر پر آن پہنچے ہیں مگر ملک کا ایک اہم ادارہ نادرا پاکستانی شہریوں کو شناختی کارڈز کی فراہمی میں ٹال مٹول بلکہ مشکلات کھڑی کررہاہے جن پاکستانیوں کے شناختی کارڈ بیس بیس سال قبل بنے تھے اور وہ کئی بار اپنے شناختی کارڈز کی تصدیق کراچکے ہیں ان سے بھی باپ، دادا کی پیدائش، اگر پاکستان ہجرت کی تھی تو اس کے کاغذات چالیس پچاس سال بعد طلب کرنا، اگر سابقہ مشرقی پاکستان سے تعلق ہے تو بنگلا دیشی قرار دینا اور صرف دو چار ہزار رشوت کے ذریعے سارے اعتراضات ختم کرکے ایجنٹ سے شناختی کارڈ بنوانے کا راستہ دکھانا۔ یہ ہے نادرا کا نادر شاہی طریقہ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ کراچی اس کا خصوصی نشانہ ہے جہاں مشرقی پاکستان سے آنے والے پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان سے بہت پہلے سے مقیم بنگالی، تین چار نسلوں سے آباد پختون یا افغان رہتے ہیں۔ نادرا کا شکار وہ لوگ بھی ہوجاتے ہیں جو اورنگی، فرنٹیئر کالونی یا اس کے قریب رہتے ہیں۔ انہیں بھی مشرقی پاکستانی، پختون افغان یا غیر ملکی قرار دیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ تو مسلسل پانچ چھ مرتبہ شناختی کارڈز کی تجدید کراچکے ہیں لیکن ان کو بھی تنگ کیا جارہاہے۔ حالانکہ دستور پاکستان کے تحت ہر پاکستانی شناختی کارڈ کا حق دار ہے لیکن نادرا نے مشرقی پاکستان کے سقوط کے ذمے داروں کو تو کچھ نہیں کہا وہاں سے پاکستان آنے والوں کو بنگلا دیشی بنانے کی ٹھان لی ہے۔ جب کہ نادرا کے دفاتر پر شناختی کارڈ بنوانے اور تجدید کرانے کے لیے جو شرائط یا ضروری ہدایات لکھی ہیں وہ اس طرح نہیں جس طرح نادرا کا عملہ طلب کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 1971ء میں اگر کسی کے دادا مشرقی پاکستان سے اس لیے پاکستان آگئے تھے کہ پاک فوج نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور پاکستانی حکومت نے بنگلا دیش کو تسلیم کرلیا ہے تو اس سے اس شخص کے دادا کی پاکستانیت کیسے مشکوک ہوگئی۔ پھر 1971ء میں قومی شناختی کارڈ اس وقت کے ضوابط کے مطابق مکمل تصدیق کے بعد بنائے جانے لگے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نادرا کا قیام عمل میں آیا۔ سارا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہوگیا۔ پشاور میں مشین پر انگوٹھا رکھیں تو کراچی کے شناختی کارڈ کی خبر ملتی ہے۔ امریکا میں بھی انگوٹھا یا انگلی کا نشان پاکستان کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھنے والوں کا ریکارڈ سامنے لے آتا ہے۔ یہ اچانک کیا ہوگیا کہ نادرا کے دفاتر میں پاکستانیوں ہی کو شناختی کارڈ سے محروم کیاجانے لگا۔ ایک ایسے ہی دفتر میں جب 1976ء سے مسلسل شناختی کارڈ بنوانے والی خاتون سے کارڈ کی تجدید کے موقع پر یہ کہا گیا کہ اس بات کا ثبوت نہیں مل رہا کہ آپ پاکستانی ہیں اور اب تک کے یہ شناختی کارڈ اصلی ہیں تو اس افسر سے پوچھ لیا گیا تھا کہ کیا ملا اختر منصور کا کارڈ آپ نے بنایا تھا۔ اس سوال کے فوراً بعد میٹرک کی سند پر معاملہ ٹل گیا۔ اس طرح کے سیکڑوں کیسز روزانہ کراچی بھر میں ہورہے ہیں۔ کہیں دھونس دھمکی تعلقات اور زیادہ تر رشوت۔ شناختی کارڈ کی فراہمی حکومت پاکستان کی آئینی ذمے داری ہے اور نادرا تو اس آئینی حق سے لوگوں کو محروم کرکے آئین شکنی کی مرتکب ہورہی ہے۔ ایک مبہم جملہ نادرا کی ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی دستاویز ضروری ہو تو وہ بھی طلب کی جاسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تسلسل سے شناختی کارڈ بنانے اور تجدید کرانے والوں سے یہ کیوں کہا جارہاہے کہ آپ کے پاکستانی ہونے کی تصدیق نہیں ہورہی۔ اور جب کوئی کسی اہلکار یا ایجنٹ کے ذریعے شناختی کارڈ بنوالیتا ہے تو سارے اعتراضات کہاں جاتے ہیں؟ ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ کراچی و حیدرآباد جہاں کے عوام نادرا کی غیر قانونی حرکات کا شکار ہیں یہاں سے منتخب ارکان صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹرز کیا کررہے ہیں؟ انہیں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے منتخب کیا گیا تھا لیکن وہ لندن، ایم کیو ایم پاکستان، کمال اور عامر خان کے تحفظ یا مفادات کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے بھی صرف جماعت اسلامی میدان میں ہے۔ یہ بجائے خود ایک سوال ہے جس کا جواب اہل کراچی پر قرض ہے کہ مہنگائی کا مسئلہ ہو تو جماعت اسلامی آواز اٹھائے، کے الیکٹرک کے مظالم ہوں تو جماعت اسلامی آواز اٹھائے، لاپتا افراد کا معاملہ ہو تو جماعت اسلامی آواز اٹھائے۔ غرض عوام کے ہر مسئلے کے لیے جماعت اسلامی ہی میدان میں آتی ہے اور نادرا کی زیادتیوں کے خلاف بھی جماعت اسلامی آج منگل کے دن نادرا ہیڈ آفس پر احتجاجی دھرنا دے رہی ہے۔ یقینی طور پر اس میں ان تمام متاثرین کو شامل ہونا چاہیے جن کو نادرا نے تنگ کیا ہے یا شناختی کارڈ سے محروم کیا ہے۔ حکومت بھی اس کا نوٹس لے کہ پاکستانیوں کو شناختی کارڈ سے محروم کیوں کیا جارہاہے۔