ٹیکسٹائل ملز مالکان کے بھارت سے روئی در آمد کے معاہدے منسوخی سے بحران کا خدشہ

712

کراچی:کاٹن انڈسٹری میں جاری بد ترین بحران  منگل کو جای رہا جسارت سروے کے مطابق صنعتکاروں نے بتا یا کہ   ٹیکسٹائل ملز مالکان پوری کوشش کر تے رہے ہیں کہ اس مسلے کو فوری طور پر حل کر لیا جائے۔انھوں نے بتایا کہ اگر بحراان فوری طور پر حل نہ ہوا تو ملکی برآمدات پر منفی  اثرات متب ہوں گے  کے باعث بعض پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے بھارت سے کئے گئے روئی درآمدی معاہدے منسوخ کرنے شروع کر دیئے ہیں جبکہ پلانٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کراچی کی جانب سے بھارت سے درآمد ہونے والی روئی کی بعض کنسائنمنٹس قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کی بنا پر کلیئر کرنے سے انکارکردیا گیا ہے،بڑے پیمانے پر سوتی دھاگے اور گرے کلاتھ کی اسمگلنگ اور ایف بی آر کی جانب سے ٹیکسٹائل ملز کے کئی سالوں سے رکے ہوئے

ریفنڈز کی ادائیگی شروع نہ ہونے سے پاکستانی کاٹن انڈسری تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے۔چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ہونے والے غیر معمولی اضافے کے باعث توقع ظاہر کی جا رہی تھی اس سے پاکستانی ٹیکسٹائل و کاٹن ایکسپورٹس میں خاطر خواہ اضافہ سامنے آئے گا لیکن روئی کی بین الاقوامی منڈیوں میں

مسلسل مندی کے رجحان اور غیر پیشہ ورانہ حکومتی پالیسیوں کے باعث پاکستانی کاٹن انڈسٹری بجائے ترقی کے رو بہ زوال ہے ۔انہوں نے بتایا کہ خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں سوتی دھاگے اور گرے کلاتھ کی درآمد پر کم ترین درآمدی ڈیوٹیز نافذ ہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل بھارت سے سے روئی کی درآمد مکمل طور پر ڈیوٹی فری ہونے سے پاکستان میں روئی کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی واقع ہونے سے کاٹن جننگ انڈسٹری جبکہ سوتی دھاگے اور گرے کلاتھ کی ریکارڈ اسمگلنگ کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل ملز بھی غیر معمولی معاشی بحران کا شکار ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت سے روئی کی درآمد ڈیوٹی فری ہونے سے پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے بڑے پیمانے پر بھارت سے روئی کے درآمدی معاہدے کئے تھے لیکن اندرون ملک روئی کی قیمتوں میں غیر معمولی مندی اور برآمدی آرڈرز نہ ملنے کے باعث بعض پاکستانی ٹیکسٹائل ملز مالکان نے اب یہ معاہدے منسوخ کرنا شروع کر دیئے ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق پلا نٹ پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ کراچی نے بھارت سے درآمد ہونے والی روئی کی بعض کنسائنمنٹس قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کے باعث کلیئر نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ پاکستانی کپاس کی فصل پر اس درآمدی روئی کی منفی اثرات مرتب نہ ہو سکیں۔انہوں نے کہا حکومت پاکستان کو چاہیئے کہ بھارت سے درآمد ہونے والے سوتی دھاگے،گرے کلاتھ اور روئی کی درآمد پر اتنی ہی درآمدی ڈیوٹیز نافذ کرے جتنی بھارت نے یہ اشیاء پاکستان سے درآمد کرنے پر عائد کر رکھی ہیں جبکہ ان اشیاء کی اسمگلنگ پر بھی ہنگامی بنیادوں پر قابو پایا جائے تاکہ پاکستانی کاٹن انڈسٹری معاشی بحران سے باہر آ سکے