لودھراں ٹرینڈ؟

220

میاں نواز شریف، شہباز شریف، مر یم نواز اور حمزہ شہباز نے لودھراں میں ایک بڑے عوامی جلسے سے ایک ایسے موقع پر مشترکہ خطاب کیا ہے جب موجودہ اسمبلی کے آخری ضمنی الیکشن میں حکمران مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور عمران خان کے دست راست سمجھے جانے والے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو لودھراں کے حلقے این اے 154 پر 27 ہزار ووٹوں کی بھاری اکثریت سے شکست دی ہے۔ یاد رہے کہ این اے 154 ملک کا وہ منفرد حلقہ ہے جس پر پچھلے ساڑھے چار سال کے دوران 2013 کے عام انتخابات کے بعد دو دفعہ ضمنی الیکشن ہو چکے ہیں جن میں سے ایک دفعہ تحریک انصاف اور دو دفعہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔ یاد رہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار صدیق بلوچ 86 ہزار 177 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے جب کہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے امیدوار جہانگیر ترین کے حصے میں 75 ہزار 955 ووٹ آئے تھے، بعدازاں جہانگیر ترین نے دھاندلی کا الزام لگا کر ان نتائج کو الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کر دیا تھا جس کا فیصلہ جہانگیر ترین کے حق میں آیا جس کے نتیجے میں یہاں ضمنی الیکشن ہوا جس میں ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) نے صدیق بلوچ اور پی ٹی آئی نے جہانگیر ترین کو میدان میں اُتارا۔ مسلم لیگ (ن) یہ نشست بچانے میں ناکام ہوگئی اور اس ضمنی الیکشن میں اس کے امیدوار صدیق بلو چ جہانگیر ترین کے ہاتھوں 38 ہزار 7 سو 86 ووٹو ں کی واضح اکثریت سے ہار گئے تھے۔ یہ کیس بعدازاں عدالت عظمیٰ تک پہنچا جس نے گزشتہ سال دسمبر میں جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے کر یہاں دوسری دفعہ ضمنی الیکشن کا حکم جاری کیا۔ اس مرتبہ نااہلی کے باعث چوں کہ جہانگیر ترین خود امیدوار نہیں بن سکتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے علی ترین کو ٹکٹ جاری کروایا جب کہ صدیق بلوچ کی معذرت پر مسلم لیگ (ن) نے اپنا ٹکٹ ایک نسبتاً کمزور اور نئے امیدوار پیر اقبال شاہ کو جاری کیا۔
مسلم لیگ (ن) کا خیال تھا کہ چوں کہ این اے 154 کی نشست پر جہانگیر ترین کا کافی ہولڈ ہے اور اس نشست پر جیت یا ہار سے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) پر عددی لحاظ سے کوئی اثر نہیں پڑ ے گا اس لیے مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت نے اس ضمنی الیکشن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے تو ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کے علاوہ پارٹی ورکرز کو متحرک کر نے کے لیے یہاں کا دورہ کرنا ضروری سمجھا لیکن مسلم لیگ (ن) کی جانب سے نہ تو میاں نواز شریف اور نہ ہی میاں شہباز شریف سمیت کسی بھی اعلیٰ حکومتی یا پارٹی شخصیت نے یہاں کا دورہ کیا۔ اسی طر ح یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ ضمنی الیکشن فوج کی نگرانی میں بھی عمران خان ہی کے مطالبے پر ہوا۔ لہٰذا اس تناظر میں اکثر سیاسی تجزیہ کار اس ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی جیت اور پی ٹی آئی کی شکست کو ایک نئے بیانیے جسے میاں نواز شریف ووٹ کے تقدس کی تحریک قرار دے رہے ہیں کا اعجاز قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب اس نقطہ نظر کے مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ اس ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی جیت کے پیچھے اصل میں پنجاب حکومت کے اربوں روپے کے وہ ترقیاتی منصوبے ہیں جن پر پچھلے چند ماہ کے دوران یا تو عمل درآمد ہو چکا ہے اور یا جن کی تکمیل کا اعلان پنجاب حکومت نے کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں چوں کہ ضمنی انتخابات کو حکومت کے انتخابات سمجھا جاتا ہے اس وجہ سے بھی یہ حلقے اس ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کو روٹین کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے درمیان بہرحال اس حقیقت کو نظر انداز کرنا شاید کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا کہ نااہلی کے بعد میاں نواز شریف کی مقبولیت کا گراف گرا نہیں ہے بلکہ ان کی عوامی قبو لیت میں اضافہ ہوا ہے جس کا ثبوت جہاں ان کے بڑے بڑے عوامی جلسے ہیں وہاں اس ضمن میں چکوال اور لودھراں کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو بھی یکسر نظر انداز کرنا قرین انصاف نہیں ہو گا۔