جنگ کھیل نہیں ہوتی

250

ملک کی مشہور گائیکہ نورجہان نے گو کہ ’’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘‘ کہہ کر دشمن پر طنز کیا تھا مگر حقیقت یہ ہے جنگ کسی کے لیے بھی کھیل نہیں ہوتی۔ معاشرے کا کوئی بھی طبقہ اسے کھیل نہیں سمجھتا۔ ہارنے اور جیتنے والے دونوں اسے کھیل قرار دینے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہتے۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ جنگ ہی واحد آپشن نہیں بلکہ مذاکرات ہی مسائل کا واحد حل ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات کہنے پر بھارت کا میڈیا انہیں قوم دشمن کہے گا انہوں نے یہ بیان اس وقت دیا ہے جب جموں سنجیووان کے مقام پر ایک فوجی کیمپ پر حملے کے نتیجے میں پانچ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے ہیں جن میں چار کا تعلق کشمیر سے تھا۔ اس کے ساتھ ہی کنٹرول لائن پر آئے روز کی فائرنگ، گولہ باری اور جھڑپوں کے باعث کشیدگی بھی بڑھ رہی ہے اور دونوں طرف سے عام کشمیری باشندوں کا جانی ومالی نقصان ہورہا ہے۔ فوجی کیمپ پر حملے کے بعد ہی کشمیر اسمبلی میں نیشنل کانفرنس کے رکن اسمبلی اکبر لون نے اس وقت پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر سب کو چونکا دیا تھا جب بی جے پی کے ارکان اسمبلی پاکستان اور اسلام کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے۔ اکبر لون اب بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ انہوں نے بقائمی ہوش وحواس پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا اور یہ بی جے پی کی ہرزہ سرائی کا فوری اور فطری ردعمل تھا۔
محبوبہ مفتی ایک کائیاں سیاسی راہنما مفتی سعید کی بیٹی ہیں وہ اپنی سرشت میں ایک ڈپلومیٹ آدمی تھے مگر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اپنے روایتی درشت لہجے میں بھارتیوں کو چیلنج کر رہے ہیں کہ: ’’ہمت ہے تو آزادکشمیر پر چڑھائی کر دکھاؤ‘‘۔ محبوبہ مفتی کی طرف سے بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مشورے کے پیچھے یہی حالات اور واقعات ہیں۔ بھارت کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو کچلنے اور دبانے میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ اب بھارت کی حکمت عملی کنٹرول لائن پر آزادکشمیر کی حدود میں محدود پیمانے کی کارروائی ہے۔ اپنی اس دیرینہ خواہش کو بھارت ماضی میں ’’ہاٹ پرسیوٹ‘‘ یعنی گرم تعاقب کہتا تھا اور اب اس خواہش کا نام ’’سرجیکل اسٹرائیکس‘‘ رکھا گیا ہے۔ بھارت کی اس خواہش کی وکالت امریکا بھی کررہا ہے۔
امریکا پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائی پر زور دیتا چلا آرہا ہے۔ یہ ماڈل ان دنوں مصر میں روبہ عمل ہے جہاں اسرائیل مصر کی حدود میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کر رہا ہے اور مصر کی حکومت اس کارروائی پر خاموش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عسکریت پسند مصر اور اسرائیل دونوں کے لیے دردِ سر ہیں۔ پاکستان محدود طور پر اس فلسفے کو ڈیورنڈ لائن پر اپنا چکا ہے جہاں امریکا درجنوں امریکا مخالف عسکریوں کو مارنے کے بعد ایک آدھ پاکستان مخالف عسکری کو بھی ڈرون حملے کا نشانہ بناتا ہے۔ حال ہی میں ٹی ٹی پی کے خالد سجنا کی ڈرون حملے میں ہلاکت اس کا ثبوت ہے۔ اس سے پہلے حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود جیسے سرگرم عسکری جو ریاست پاکستان کی رٹ چیلنج کر رہے تھے امریکی کاررائیوں کا نشانہ بنے تھے۔ ڈیورنڈ لائن پر امریکا اور پاکستان کے درمیان مشترکات بہت ہی کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پاکستان اور امریکا کے دفاعی مقاصد میں گہری خلیج پیدا چکی ہے۔ یہی خلیج پاکستان کو لٹھ اُٹھا کر طالبان کا تعاقب کرنے سے روکے ہوئے ہے۔
کنٹرول لائن کا معاملہ تو قطعی مختلف ہے جہاں بھارت اور پاکستان کے دفاعی مقاصد میں خلیج ہی نہیں بلکہ دونوں میں گہرا تضاد ہے اور دونوں میں دشمنی کا عنصر بھی غالب اور نمایاں ہے۔ یہاں ولن اور ہیرو کی ترتیب قطعی اُلٹی ہے۔ بھارت کا ہیرو پاکستان کا ولن اور پاکستان کا ہیرو بھارت کا ولن ہے۔ پاکستان کا وزیر اعظم اقوام متحدہ کے فورم پر کھڑے ہوکر برھان وانی کی بات کرتا ہے تو بھارت کا وزیر اعظم اسے دہشت گرد کو تکریم دینے کی کوشش قرار دیتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی دفاعی حکمت عملی تضادات سے بھری پڑی ہے اور اب یہ دوچار برس کی بات نہیں پون صدی کا قصہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ: 2003 میں دہلی کے ابراہیم پور علاقے میں گاندھی آشرم میں جب انٹرویو کے دوران گاندھی جی کی جانشین آنجہانی نرمیلا دیش پانڈے سے انٹرویو کر رہا تھا تو وہ کنٹرول لائن کے دورے کا ایک واقعہ سنا رہی تھیں کہ جب ایک بھارتی فوجی نے بریفنگ دیتے ہوئے انہیں کہا وہ سامنے دشمن کا علاقہ ہے۔ نرمیلا دیش پانڈے کا کہنا تھا کہ انہوں نے فوج کو ٹوکتے ہوئے کہا دشمن کے بجائے تم ہمسائے کا علاقے بھی کہہ سکتے ہو۔ گویا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کے تصورات بہت اندر تک سرایت کر چکے ہیں اور یہ سب کچھ بے سبب نہیں۔ اس لیے کنٹرول لائن پرکوئی مشترکہ دشمن ہے نہ کوئی قدرِ مشترک۔ مصر کی حدود میں اسرائیل کی کارروائیوں اور مصر کی خاموشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر جنوبی ایشیا کے تناظر میں محض ایک حماقت ہے۔ اس کے باجود مصر ماڈل کو امریکا کنٹرول لائن پر اپنانا چاہتا ہے۔ پاکستان نہ صرف اس سمیت ہر قسم کو ماڈلز کو بہت پہلے ہی مسترد کر کے بیٹھا ہے۔ پاکستان کے فوجی کنٹرول لائن پر بھارت کی مہم جوئی کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ پاکستان اس خواہش کو مسلسل مسترد کررہا ہے اور سختی سے یہ موقف اپنائے ہوئے ہے کہ اس کی ایک انچ حدود کی زمینی یا فضائی خلاف ورزی پر بھرپور اور مناسب ردعمل دکھایا جائے گا۔ ردعمل کا خوف اب تک بھارت کو کسی بھی مہم جوئی سے روکے ہوئے ہے۔ ایسے میں محبوبہ مفتی کا بھارت کو مشورہ چشم کشا ہے۔ بھارت حقیقت پسندی کا راستہ اختیار کرے تو جنوبی ایشیا کسی خوفناک حادثے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ جنگ کی بات کرنا آسان ہے مگر اس کے نتائج اور ہولناکیوں کا انداز ہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جو جنگ کی تباہ کاریوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔