بابا الف کے قلم سے
سابق صدر آصف علی زرداری نے راؤ انوار کو اپنا بہادر بچہ قرار دیا ہے۔ ان کے اس جملے میں راؤ انوار کے اب تک گرفتار نہ ہونے اور عدلیہ سمیت تمام سیکورٹی اداروں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے کی رمز پنہاں ہے۔
مجرم ہو بارسوخ تو انصاف کچھ نہیں
کس نے یہ نقش کردیا میزان عدل پر
ظلم کی سیاہی سے لکھے ہوا زرداری صاحب کا یہ قول ان کی اس عادت کا خاصہ ہے کہ وہ دوستوں کو بھولتے نہیں۔ سیاں ہو کوتوال توڈر کاہے کا۔ سیاں بھی کوئی اور نہیں سابق صدر آصف علی زرداری ہوں تو پھرکسی کو بھی بہادر بننے سے کون روک سکتا ہے۔ واٹس ایپ کالز کون ٹریس کرسکتا ہے۔ بہرحال ممکن ہے ایسے ہی کسی دوست کے گھر میں راؤ انوار نتشے کا فوق البشر بنا چھپا ہوا ہو۔ اب زرداری صاحب کے کسی دوست کے لیے یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ چوہا بنا چھپا ہوا ہو۔ عدالت عظمیٰ اور راؤ انوار کے اب تک کے معاملات بھی ساس بہو کا جھگڑا محسوس ہوتے ہیں۔ ناراض بہو کو گھر لانے کے لیے جیسے اس کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔ بہادر بچہ اتنا بھی سادہ نہیں جتنا عدالت عظمیٰ نے باور کرلیا تھا۔ وہ اس سسٹم کا رمز شناس ہی نہیں برسوں اس سے کھیلتا بھی رہا ہے۔ بہرحال صدر آصف علی زرداری کے اس قول میں ہمارے سماج کے ایک بہت بڑے بگاڑ اور خرابی کا راز پوشیدہ ہے۔ بستیاں اور معاشرے کیسے تباہ ہوتے ہیں، اس کا سراغ ملتا ہے۔ ایک قصہ سن لیجیے:
ایک توتے اور توتی کا گزر کسی جنگل سے ہوا۔ جنگل میں جا بجا درخت سوکھے ہوئے، گھاس جلی ہوئی اور چرند پرند خوراک کی تلاش میں پریشان۔ توتے نے توتی سے کہا: ’’اس جنگل میں کسی الّوکا بسیرا معلوم ہوتا ہے۔ جہاں الّو بسیرا کرتے ہیں وہ جگہ برباد ہوجاتی ہے۔‘‘ قریب ہی ایک الّو ان کی باتیں سن رہا تھا۔ وہ ان کے پاس آیا اور بولا ’’زہے نصیب آپ اس جنگل میں تشریف لائے۔ اگر آپ دونوں رات کا کھانا میرے ساتھ تناول فرمائیں تو بہت ممنون ہوں گا۔‘‘ توتے اور توتی نے بخوشی الّو کی دعوت قبول کرلی۔ رات کو دونوں دعوت میں پہنچے تو یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ الّو نے کافی اہتمام کیا تھا۔ کھانا کھا کرجب توتا اور توتی رخصت ہونے لگے تو الّو نے غصے سے توتے سے کہا: ’’یہ تم توتی کو کہاں لے جا رہے ہو توتی میری بیوی ہے‘‘۔ توتے نے حیرت سے کہا: ’’بھائی یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ تمہاری نوع الگ توتی کی الگ۔ توتی تمہاری بیوی کیسے ہوسکتی ہے‘‘۔ الّو نے چیخ کر کہا: ’’فضول باتیں مت کرو۔ توتی میری بیوی ہے۔ اگر تمہیں اعتراض ہے تو چلو عدالت چلتے ہیں وہاں جو فیصلہ ہوگا وہ تو تمہیں منظور ہوگا یا نہیں۔‘‘ توتے نے کہا: ’’ٹھیک ہے عدالت جو فیصلہ کرے گی ہمیں منظور ہوگا‘‘۔ کئی دن عدالت میں مقدمہ چلا۔ گواہ پیش ہوئے۔ اس کے بعد عدالت نے فیصلہ سنایا: ’’توتی الّو کی بیوی ہے اور الو کے ساتھ ہی جائے گی۔‘‘ فیصلہ سن کر توتا زار وقطار روتا ہوا اکیلا جانے لگا۔ الّو نے کہا: ’’کہاں جارہے ہو۔ توتی کو تو ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘ توتے نے کہا: ’’عدالت نے فیصلہ سنادیا توتی تمہاری بیوی ہے۔‘‘ الّو بولا ’’نہیں، توتی تمہاری بیوی ہے اور تمہارے ساتھ ہی جائے گی لیکن یاد رکھو بستیاں الّو کے بسیرا کرنے سے برباد نہیں ہوتیں بستیاں تب برباد ہوتی ہیں جب وہاں سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔‘‘
آج وطن عزیز میں لوگ انصاف کی طلب میں قریہ قریہ شہر شہر برسر احتجاج ہیں۔ اس ملک میں نہ زینب جیسی بچیاں محفوظ ہیں اور نہ نقیب اللہ جیسے کڑیل جوان۔ کہیں بچیاں ہوس کے ماروں کا نشانہ ہیں تو کہیں ماورائے عدالت مارے جانے والے جوان پولیس افسروں کی ترقی کا زینہ۔ زینب کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ جدید انداز سے ترشی ہوئی ڈاڑھی اور نیلی آنکھوں والے اس بلند قامت جوان کی سوشل میڈیا کے بے کنار سمندر میں تیرتی ہوئی تصویریں ہر آنکھ کو لہو رلانے لگیں۔ زینب تو ایک جنونی قاتل کی بھینٹ چڑھ گئی لیکن نقیب اللہ محسود کی فریاد کس سے کیجیے جسے سادہ لباس اہل کار اٹھا کر لے گئے اور چند روز بعد ایک جعلی مقابلے میں شاہ لطیف تھانے کی حدود عثمان خاصخیلی گوٹھ سے اس کی لاش ملی۔ کہا جاتا ہے کہ راؤ انوار کا برسوں سے یہی طریق کار ہے کہ وہ خود ہی گرفتار کرتا ہے، خود ہی عدالت سجاتا ہے اور خود ہی فیصلہ سنا کر ملزموں کے ساتھ انہیں بھی جعلی پولیس مقابلے میں مار دیتا ہے جن کے ورثا سے ڈیل طے نہ ہوسکے۔
کوئی جنازہ کبھی تنہا نہیں اٹھتا اس کے ساتھ نہ جانے کتنے جنازے اٹھتے ہیں لیکن کسے فکر ہے۔ امن تہذیب انسانیت دوستی اور قاتلوں کی گرفتاری کے نعرے لگتے رہیں گے لیکن بھیڑیے ہر عتاب سے آزاد وردی اور بے وردی آزاد پھرتے رہیں گے۔ پنجاب کے راؤ انوار عامر باکسر کا کہنا ہے کوئی بھی جعلی پولیس مقابلہ اعلیٰ حکام کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔ بیش تر مقابلوں کے لیے حکام بالا خود اجازت دیتے ہیں۔ جس سسٹم میں سینیٹ کی ایک سیٹ 25کروڑ سے ایک ارب میں بکتی ہو۔ وزیراعظم اور وزیرخزانہ گلف ممالک کے خفیہ اقامے رکھتے ہوں اور خفیہ نوکریاں کرتے ہوں، انصاف کے حصول میں عمر بیت جاتی ہو، وکیل کے بجائے جج کرنے کے مشورے دیے جاتے ہوں، من پسند افسران کو ترقی دینے کے لیے ضابطوں کی پامالی معمول ہو، افسران قانون کے بجائے حکام بالا کی خدمت کرتے ہوں، بااثر لوگوں کے کہنے پر پولیس خود گھناؤنے جرائم میں ملوث ہو وہاں مجرم کی گرفت اور انصاف کا حصول تب ہی ممکن ہے جب مجرم اللہ کی گرفت میں آگیا ہو۔
قریہ قریہ شہر شہر سڑکوں پر ٹائر جلنے لگے ہوں، سوشل، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا متحرک ہوگیا ہو۔ قوم مشتعل اور بے قابو ہوگئی ہو۔ تب ملمع سازی کے لیے کچھ اقدامات کردیے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اصل مجرم کو بچانے اور مہرے کو مروانے کے لیے بھی کوششیں جاری رہتی ہیں۔
آج راؤ انوار کے معاملے میں یہ بات سب پر عیاں ہے کہ راؤ انوار ایک مہرہ ہے۔ جو اعلیٰ حکام کے راستے کے کانٹے صاف کرتا تھا۔ اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ اعلیٰ حکام کسی باغ سے ایک سیب توڑیں اور نیچے درجے کے ملازمین پورا باغ نہ اجاڑ دیں۔ راؤ انوار کا زیادہ تر نشانہ وہ پختون تھے امریکا جنہیں دہشت گرد کہتا ہے۔ ان پاکستانی قبائلیوں پر گرفت کرنے کے لیے جو قابض امریکی فوج کے خلاف افغانستان میں جہاد میں مصروف اپنے بھائیوں کی مدد کررہے ہیں امریکا کی ایما پر پاکستانی حکام نے بدسلو کی کا رویہ اپنایا ہوا ہے۔ امریکا کی چھیڑی ہوئی صلیبی جنگ میں بر سر پیکار مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر گوانتانا موبے میں سڑنے کے لیے امریکا کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ انہیں اغوا کرکے برسوں نامعلوم مقامات پر قید کردیا جاتا ہے یا پھر ماورائے عدالت قتل کردیا جاتا ہے۔ جہاد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک امریکا کا حکم زیادہ قابل ترجیح ہے۔ واشنگٹن کی خوشنودی انہیں زیادہ عزیز ہے۔
اسلام انسانی جان کی حرمت پر بہت زیادہ زور دیتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مسلمان کی جان کو کعبے کی تقدیس پر ترجیح دیتے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے ’’اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لیے اس نے بڑا (سخت) دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ سچ کی تلاش اور انصاف کی فراہمی آج کسی کی ترجیح نہیں ورنہ راؤ انوار کو جرات نہ ہوتی کہ ملک کے ایک حصے کو پولیس اسٹیٹ بناکر رکھ دے۔