جنگ کا نتیجہ کیا ہوگا؟

336

گویا یہ طے پاگیا ہے کہ اسمبلیاں ججوں کے کردار پر بحث کریں گی۔ عدلیہ سیاست دانوں کے کردار پر اور سیاست دان ایک دوسرے اور عدلیہ کے کردار پر بحث کریں گے۔ اس ملک میں بحث کے لیے یہی دو ادارے ہیں تیسرا بیورو کریسی کا ہے جس کا کوئی نام پتا نہیں ہے صرف بیورو کریسی کہہ دیا جاتا ہے۔ بڑی ہمت ہو تو سول و فوجی بیورو کریسی یا جرنیلوں پر بھی تنقید ہوتی ہے لیکن زیادہ تر ریٹائرڈ جرنیلوں پر۔ آج کل سب سے زیادہ تنقید عدلیہ اور چیف جسٹس پر ہورہی ہے لیکن وہاں سے بھی کم توپیں نہیں چل رہیں۔ اندھا دھند نہیں تو دھواں دھار فائرنگ دونوں طرف سے ہورہی ہے۔ عدلیہ کی سنیں تو لگتا ہے کہ حکمران صرف چور نہیں ڈاکو ہیں لٹیرے ہیں۔ حکمرانوں کی سنیں تو لگتا ہے کہ عدلیہ کو قانون کا پتا ہے نہ جمہوریت کا بس کسی کے خلاف فیصلے دینے میں مصروف ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میاں صاحب بھی فوج سے نالاں ہیں اور اپوزیشن کی پیپلزپارٹی بھی۔ لیکن فوج پر تنقید کرنے میں پیپلزپارٹی پہلے تو محتاط تھی اب بلاول نے کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ فوج تو ہماری ہے اس پر تنقید کیوں کریں۔ اور عدلیہ کو فوج سے فی الحال کوئی مسئلہ نہیں اور جس کو بھی فوج سے مسئلہ ہوتا ہے وہ آخر میں وہی کہتا ہے جو بلاول کہہ رہے ہیں۔ اس لیے اس جانب الیکٹرانک میڈیا بھی نہیں جارہا اور پرنٹ والے بھی نہیں جارہے۔ لیکن اس فوج کے لیے اسٹیج کون تیار کررہاہے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے کوئی فیصلہ کسی شخصیت کے خلاف دے دیا اور وہ کسی پارٹی یا بہت سے لوگوں کی نظر میں غلط ہے تو وہ اس کو مسترد کرنے کے تمام قانونی ذرائع اختیار کریں۔ وہ کام بھی کرجائیں جس کا اعلان میاں نواز شریف نے کیا ہے کہ ہم نا اہلی کا قانون ہی ختم کردیں گے۔ لیکن وزیراعظم کے منصب پر براجمان شخص کو یہ کہنے سے قبل دس مرتبہ سوچنا چاہیے تھا کہ نواز شریف کو سزا ہوئی تو جنگ ہوگی۔ کیا وزیراعظم کے خیال میں نواز شریف نام کا کوئی آدمی کسی بھی سزا سے مستثنا ہے کہ وہ کوئی جرم کرلے تو غلط بیانی کرلے اسے ہر حال میں وزیراعظم کے منصب پر براجمان رہنا ہے۔ یا یہ کہ جو شخص ایک مرتبہ وزیراعظم بن گیا وہ ہر عدالتی حکم سے مبرا ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا کہ نواز شریف پر جو الزامات ہیں ان کے ثبوت نہیں مل رہے لیکن وہ پھر بھی عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔ تو اس میں کون سی ایسی بات ہے جو ان کے خلاف سزا سنانے پر جنگ چھیڑ دے گی۔ وزیراعظم خود بار بار کہتے ہیں کہ اداروں کو حد میں رہنا چاہیے لیکن جنگ کی دھمکی کا مطلب کیا انہیں نہیں پتا نواز شریف کو سزا کون دے گا۔ یہ سزا تو عدالت دے گی تو کیا عدالت کے فیصلے پر پیپلزپارٹی سے جنگ کی جائے گی۔ یہ تو عدالت عظمیٰ کو کھلی دھمکی دی گئی ہے۔ کیا وزیراعظم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اس جنگ کا نتیجہ کیا ہوگا؟ انہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ عدالت عظمیٰ سے جنگ کا نتیجہ جمہوری نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا۔ ممکن ہے آج کل کے حالات فوجی مداخلت کے لیے سازگار نہ ہوں لیکن حکمران، عدلیہ اور اپوزیشن کے بعض لیڈر اس اشتعال انگیزی کو ہوا دے رہے ہیں اور ان صفوں میں کوئی یا کچھ لوگ فوج کے لیے حالات سازگار بنادیں۔ ویسے عدلیہ کو جنگ کی دھمکی دینے کا مطلب کیا ہے۔ اس سے تو لگتا ہے کہ حکومت خود چاہتی ہے کہ کچھ ہوجائے۔ ضمنی انتخابات تو نواز کارڈ کے بل پر جیتے اب سیاسی شہادت بھی چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اتفاقاً نہیں ہورہا کسی نہ کسی جگہ سے ہدایات دی جارہی ہیں اور ان ہدایات کے پس پشت یہی نظریہ کار فرما ہے کہ ضرورت ہو یا نہ ہو کم از کم حالات تو ایسے پیدا کردیے جائیں جن کے نتیجے میں سیاسی نظام لپیٹنا آسان ہوجائے۔ اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اب عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ پارلیمان کو عدلیہ کے خلاف استعمال کیا گیا تو ہم سڑکوں پر آجائیں گے۔ بحث پارلیمان میں اور جناب سڑکوں پر۔ اس کا فائدہ کس کو ہوگا۔ اب بات وزیراعظم کے سوچنے کی بھی ہے اور اپوزیشن کے لیے بھی اہم ہے۔ جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو وہاں سے بھی بس نہیں ہوئی بلکہ ایک بار پھر یہی کہا گیا ہے کہ سیاست دانوں سے سوال بھی نہ کیے جائیں وہ کہتے ہیں کہ بھرپور طاقت استعمال کریں گے۔ پارلیمان آئین سے متصادم قانون نہیں بناسکتی۔ یہ کہنا اور بات ہے جب کہ پارلیمنٹ نے درجنوں قوانین آئین سے متصادم بنا رکھے ہیں اور عدلیہ اس پر خاموش ہے۔ ملک میں یہ سب یوں ہی نہیں ہورہا۔ کہیں نہ کہیں سے ڈوریں ہلائی جارہی ہیں۔ اور یہ ڈوریں سب کو تباہی یا نظام سمیٹنے کی طرف لے جارہی ہیں۔ وزیر داخلہ کی جانب سے شریف فیملی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے نیب کی سفارش پر تبصرہ بھی اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نیب کی سفارش کے پابند نہیں جب کہ نیب قانوناً وزیراعظم کے منصب سے بالاتر ہے۔ اگر وزیراعظم اور وزرا اداروں کو اس طرح چیلنج کرتے رہیں گے تو سیاسی نظام کے خلاف کسی کو بھی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ویسے وزیراعظم کے تبصرے یا دھمکی پر وزیراعلیٰ کا بیان کافی سمجھاجانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں ہم خود ملک تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ آج کسی محکمے کا انتظام نہیں چلاسکتے کوئی اقدام کریں صبح حکم امتناع دکھادیا جاتا ہے۔ ان کا یہ تبصرہ بجا ہے کہ ہمیں دشمن کی ضرورت نہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ آج اقدام کریں صبح حکم امتناع دکھادیا جاتا ہے، ایسا تو نہ کہیں۔ عوام کو روزگار، ایماندار پولیس، سرکاری اداروں میں رشوت کا خاتمہ، جھوٹے وعدے کرنے اور کرپشن کے خلاف اقدام پر کب حکم امتناع آیا ہے۔ یہ سارے دھندے تو بھرپور طریقے سے چل رہے ہیں۔ شاید یہ آخری درخواست ہو۔ وزیراعظم عدلیہ اور اپوزیشن اپنے دائروں میں رہیں ورنہ سب ایک ہی دائرے میں ہوں گے اور وہ فوجی دائرہ ہوگا۔