بلا تفریق مکمل مفت علاج کررہا ہے‘ ڈاکٹر ندیم قمر

964

قومی ادارہ برائے امراض قلب
لیاقت میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کے بعد امریکا میں 11 سال امراض قلب کے علاج میں مہارت حاصل کرکے پاکستان میں بے لوث عوامی خدمت کی مثال ، اعلیٰ تعلیم یافتہ ، اہم سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے طبیعت میں انتہائی سادہ، منکسر المزاج، شاہ لطیف کے پیغام سے جڑے ، خدمت انسانیت میں انتہائی متحرک اور کوشاں ،معروف کارڈیولوجسٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ، قومی ادارہ برائے امراض قلب (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو وسکولر ڈیزیزز۔این آئی سی وی ڈی ۔NICVD) ڈاکٹر ندیم قمرکے ساتھ جسارت کی خصوصی گفتگو

گفتگو:سلمان علی
سوال: آپ کا بچپن کیسا گزرا، ڈاکٹری کی جانب کیسے آئے ؟

4
ڈاکٹر ندیم قمر: میں حیدر آباد میںپیدا ہوا اور وہیں میری اسکولنگ ہوئی۔ کالج ایجوکیشن بھی لیاقت میڈیکل کالج حیدر آباد سے ہی لی۔ ہمارے والد صاحب نے بچپن سے ہی ہمارے ذہن میں ڈال دیا تھا کہ آپ نے ڈاکٹر بننا ہے۔ ہمارے تمام بھائیوں کے بارے میں والد صاحب نے پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ جو سب سے بڑا ہے وہ سیاست کرے گا، جو دوسرے نمبر کا ہے وہ ڈاکٹر بنے گااور تیسرے نمبر کا وکیل بنے گااور ہوا بھی ایسا ہی۔ اُس وقت تو ہم بہت مزاحمت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم کچھ اور کرنا چاہتے ہیں، مگر والد صاحب نے ہماری مکمل کونسلنگ و سرپرستی کی۔ کارڈیو کا شعبہ بھی والدکے کہنے پر منتخب کیا۔ ایم بی بی ایس کے بعد میں اسپیشلائزیشن کے لیے امریکا چلا گیا۔ وہاں میں 11 سال رہااورمزید تربیت حاصل کی۔ سب سے پہلے انٹرنل میڈیسن کی، اُس کے بعد کارڈیالوجی اسکالرشپ کی پھر اینجیوپلاسٹی اسکالرشپ کی اور یہ ساری ٹریننگ مکمل کر کے میں پاکستان واپس آگیا۔ جب سے ڈاکٹر بنا ہوں اور اپنی ٹریننگ ختم کر کے واپس آیا ہوں میں بہت خوش ہوں کہ مجھے شاید صحیح دھکا دیاگیا۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں پر نہ صرف آپ مریض کا علاج کر رہے ہوتے ہیں بلکہ آپ تکنیکی پروسیجر بھی کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کا ذہن اور ہاتھ دونوں کام کررہے ہوتے ہیں،اس میں بڑی خوشی ہوتی ہے ۔

2
سوال: کیسے تحرک پاتے ہیں اپنے کام کے لیے؟ آپ کا رول ماڈل کون ہے؟
ڈاکٹر ندیم قمر: میری فیملی میں میری پھپھو بھی ڈاکٹر ہیں۔ سینئر پروفیسر ہیں۔ اب تو ریٹائرڈ ہیں لیکن پھر بھی کام کرتی ہیں۔ سندھ بھر میں جانا پہچانا نام ہے۔ اُن کی جانب سے مجھے خاصی تحریک ملی،لیکن ان کے علاوہ بھی کراچی کے جو بڑے نام ہیں وہ بھی مجھے بڑے motivate کرتے تھے۔ جیسے اُ س زمانے میں سرجن غفار جتوئی تھے، جنہوں نے سب سے پہلے بائی پاس سرجری کی تھی۔ اُ ن سے ہم بچپن میںبہت متاثر ہوتے تھے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی صاحب ہیں، جنہیں ہم آج تک کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادیب صاحب سے میرے والد کا کافی پراناتعلق تھا۔ میں جب سے ڈائریکٹر بنا ہوں ہر وقت ایس آئی یو ٹی کے ماڈل کو follow کرتا ہوں۔ ادیب صاحب کے نقش قدم پراور ادیب صاحب کو رول ماڈل کر کے اپنے ادارے کو اُس جیسا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ہم نے کئی چیزیں اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے، جیسے کہ ادیب صاحب کا SIUTمکمل فری ہے ،تو اب ہمارا ادارہ بھی مکمل مفت ہو چکا ہے۔ ادیب صاحب کا جو سیٹیلائٹ کا وژن ہے ہم تھوڑا سا زیادہ آگے نکل گئے ہیں لیکن وژن وہی ہے اور ان کی کافی چیزوں میں شمولیت بھی ہے۔ اسی طرح ریسرچ، ٹیچنگ ٹریننگ کی طرف بھی ہم جا رہے ہیںاور مجھے بڑی خوشی ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم NICVDمیں ہارٹ ٹرانسپلانٹ کا پروگرام بھی شروع کریںجس میں ہم ادیب صاحب اور SIUT سے collaborate کریں گے وہ ہمارا ultimate پروگرام ہے۔
سوال: امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپسی کے حوالے سے کیا تاثرات ہیں۔NICVD جوائن کرنے کا فیصلہ کیسارہا؟

3
ڈاکٹر ندیم قمر: میں نے اپنی ٹریننگ 1994ء میں ختم کی اور فوراً اگست ہی میں پاکستان آگیا۔ میں وہاں مزید بالکل نہیں رُکا۔ وہاں کئی جگہوں سے بہت اچھی پیش کش تھی لیکن وہاں رکنے کا کبھی سوچا نہیں تھا۔ ایسا خیال کبھی نہیں کیا کہ امریکا ہی میں رہ لوں۔ میری فیملی میں میرے 2 بھائی امریکا میں پڑھے لیکن واپس آگئے اور میرے بچے جو وہاں کی پیدائش ہیں وہ بھی اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان آگئے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم لوگ پاکستان واپس آئیں، یہاں کے لوگوں کا حق ہے۔ ہم آج جو بھی ہیں، اِن لوگوں کی وجہ سے ہی ہیں۔ لہٰذا ان کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ ہمارا کوئی احسان نہیں ہے اُن پر۔ ہمیشہ ہم نے یہاں دیکھا ہے کہ لوگ اتنی respect کرتے ہیں۔ ہم ایک سیاسی خاندان سے ہیں۔ میرے دادا 1935ء سے 1945ء تک 10 سال سندھ بمبئی اسمبلی کے اسپیکر تھے،پھر ٹائی ووٹ ہوا اُس کے بعد سندھ اسمبلی dissolve ہوئی پھر قرارداد پاکستان پاس ہوئی۔ اُس کے بعد جناح صاحب نے اُن کو وزیر بنایا۔ میرے والد صاحب سینیٹر رہے، ڈپٹی اسپیکر رہے اور میرے بھائی ابھی سیاست میں ہیں۔ تو ہمیں ہمیشہ لوگوں نے عزت دی اور ہمارے خاندان میں نہ کوئی سردار ہے، نہ وڈیرہ۔ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیںجس کی وجہ سے لوگوں نے اچھے انداز میں ہمیں قبول کیا۔ میری پھپھو پہلی خاتون تھیں جنہوںنے سندھ سے جا کرانگلینڈ سے تعلیم لی اور گائنا کالوجسٹ کے طور پر مقامی عوام کی خدمت کی۔ اُس زمانے میں سندھ سے عورتیں کہاں جاتی تھیں؟ وہ گئیں، 7 سے 8 سال وہاں رہیں، تعلیم حاصل کی اور پھر واپس آکر آج تک کام کر رہی ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو انہوں نے تربیت بھی دی۔ لہٰذا ان سب چیزوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے پاس ملک سے باہر رہنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی۔میں نے NICVD ستمبر 1995ء میں جوائن کیا، ابتدا میں سینئر رجسٹرارکی حیثیت سے، اُس کے بعد میں اسسٹنٹ پروفیسر بن گیااور تب سے یہیں ہوں۔ جب میں آیا تھا تو اس زمانے میں انجیوپلاسٹی بھی اتنی عام نہیں تھی۔ یہاں ہوتی تھی، لیکن بہت کم تھی۔30لوگوں کی انجیوپلاسٹی ہم نے کی۔ لوگوں کو تربیت دی، اور ایک چیز عام کر دی جو 20 برس پہلے تک بہت ہی خاص لوگوں کے لیے تھی۔
سوال: دِل کے بارے میں کچھ بتائیے کہ اس کا جسم میں کیا کام ہے ؟
ڈاکٹر ندیم قمر: انسان کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن انتہائی ضروری ہے۔ یہ بات تو ہر آدمی جانتا ہے۔اب آکسیجن جسم کے ہر حصے تک کیسے پہنچے؟ آکسیجن خون کے ذریعے جسم کے تمام حصوں تک پہنچتی ہے اور اس کا جو پمپنگ اسٹیشن ہے جہاں سے یہ جسم کے تمام حصوں تک پہنچتی ہے وہ دل ہے۔ پہلے خون دل میں آنے کے بعد پمپ ہوتا ہے پھر پمپ ہو کر پورے جسم میں جاتا ہے اور آکسیجن سپلائی کرتا ہے۔ پھر جب آکسیجن نکل جاتی ہے تو یہ impure ہو جاتا ہے یا گندہ خون ہوجاتاہے اور واپس پھیپڑوں میں چلاجاتا ہے۔ پھیپڑوںمیں بھی دل کے ذریعے ہی جاتا ہے۔ یہ خون واپس دل کے ایک حصے میں آتا ہے جہاں سے پھر وہ پھیپڑوںمیں جاتا ہے اورخالص ہوتا ہے ،اس میں آکسیجن شامل ہوتی ہے اور پھر اُلٹی طرف سے خالصہو کر وہی پمپ ہوتاہے اور یہی سائیکل چلتا رہتا ہے۔ اس طرح تقریباً 5 لیٹر خون ہر منٹ میں جسم میں جا رہا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ہم زندہ ہیں۔ دل کا بنیادی کام آکسیجن سپلائی کا ہے اور دل پمپنگ اسٹیشن کی مانند یہ کام کرتا ہے یعنی خون کو پہنچاتا ہے۔ خالص خون کو بھی اور جو impure خون ہے اُس کو بھی پھیپڑوںمیں پہنچاتا ہے۔ تو دل کے یہ 2 حصے ہوتے ہیں ،ایک سیدھی طرف اور ایک الٹی طرف۔ سیدھی طرف کا کام ہے impure blood کو lungs میں پہنچانا اور الٹی طرف کا کام ہے کہ وہ پورے جسم میں خالص خون پہنچائے۔ آپ کراچی میں رہتے ہیں۔ اگر کراچی میں کہیں پمپنگ اسٹیشن خراب ہو جائے تو پانی نہیں آئے گا۔ دل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
سوال: عمومی طور پر دِل کے مرض کو ہارٹ اٹیک سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن یہ صرف علامت ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بتائیں کہ دِل کی مختلف بیماریاں کونسی ہیں اور کن وجوہات سے یہ وقوع پذیر ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر ندیم قمر: دِل میں مختلف قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں۔ جو سب سے عام ہے وہ یہ ہے کہ جو پائپ ہوتے ہیں جن سے خون کی سپلائی ہوتی ہے، وہ چوک ہو جاتے ہیں یا اُن سے خون کے بہنے کا راستہ بند ہو جاتا ہے۔ دل کی جو آرٹریز ہوتی ہیں وہ دل کے اوپر ہوتی ہیں، اندر نہیں ہوتی، تو وہاں جب خون جاتا ہے تو دل کے مسلز کو بھی وہاں سے خون ملتا رہتا ہے، تاکہ آکسیجن ملتی رہے۔ اس میں blockage آجانا سب سے عام ہے۔ اس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ اسی طرح سے جسم کی دوسری رگوںمیں بھی یہ بلاکیج آجاتا ہے۔ اس کی اہم بنیادی وجہ genetic ہے۔ اگر آپ کی فیملی میں کوئی ہسٹری ہے والد، والدہ ، بہن ، بھائی کو تو آپ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں فلاں سگریٹ پیتے جا رہے ہیں برسوں سے، اُن کو تو کچھ نہیں ہوا، مجھے کیوں ہوا۔تو اِ س کا یہ جواب ہے کہ جو آدمی genetically poron ہوتا ہے اُس کو یہ ورثہ میں ملتی ہے۔ اُس کے بعد دوسری وجہ تمباکو نوشی ہوتی ہے۔ NICVD کے تجربات میں ‘ میں نے وہ لوگ دیکھے ہیں جن کو 30 سے 35 سال کی عمر میں اٹیک ہوتا ہے اُن کے اندر یہ 2 وجوہات ہوتی ہیں، یعنی اُن کی فیملی میں یہ بیماری موجود ہوتی ہے اور وہ سگریٹ بھی پی رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب سے خطرناک جوڑ ہے۔ اِ س کے بعد بلڈ پریشر یا ہائپر ٹینشن ہو، شوگرہواور وہ لوگ جن کا کولیسٹرول ہائی ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سب سے زیادہ امکانات ہوتے ہیں اور اب لوگ لائف اسٹائل کی بات کرتے ہیں یعنی کہ جو لائف ایکٹیو نہیں رہتی زیادہ۔ ایکٹیویٹی لیول، چلنا پھرنا وغیرہ بالکل کم ہے۔ ورزش کا رحجان کم ہے، تو وہ بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔بنیادی طور پر امراض قلب کی 5 وجوہات ہوتی ہیں ۔فیملی ہسٹری، تمباکو نوشی، شوگر، ہائپر ٹینشن، ہائی کولیسٹرول۔ باقی دوسری چیزیں انہیں میں اپنا حصہ ملاتی ہیں۔ اگر کوئی ایکسرسائز نہیں کرے گا تو اس کا وزن بڑھے گا پھر اس کو شوگر بھی ہو گی اس کو بلڈ پریشر بھی ہو گاپھر وہ indirectly ان ہی 5 وجوہات سے آکر مل جاتے ہیں۔
سوال: پاکستان میں دل کی بیماری کے مریضوں کے حوالے سے کیا اعداد و شمار سامنے آئے ہیں؟
ڈاکٹر ندیم قمر: پاکستان کی 24 فیصد آبادی ایسی ہے جس کو دل کی تکلیف ہے۔ میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہر دوسرا پاکستانی 50 سال کی عمر کے بعد دل کے مرض کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر وقت کے ساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔ میں حتمی اعداد و شمار نہیں بتا سکتا۔ ایک پیپر میں نے پڑھا تھا جہاں 24 فیصد کا نمبر موجود تھا۔یہ پاکستان میڈیکل ریسرچ کونسل کا کام ہے۔ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ یہ جوpreventionہیں اس میں گورنمنٹ کو involve ہونا ہوگا۔
سوال: آپ نے اپنے پورے پیشہ ورانہ سفر کے دوران جہاں علاج کا سفر جاری رکھا، وہاں عوامی آگہی یعنی بیماری سے بچنے کے لیے عوام میں جاننے کی جستجو کے حوالے سے کیا کیفیت دیکھی؟
ڈاکٹر ندیم قمر: جہاں تک بچاؤ کا تعلق ہے۔جو بھی کام پاکستان میں کارڈیالوجی کمیونٹی نے کیا ہے اُس کا کوئی اثر نہیں آیا۔ مریض آتا ہے اُس کو آپ سمجھا دیتے ہیں، چلو اُس کی سمجھ میں آگئی۔لیکن عوام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس حوالے سے ہم نے کچھ معلوماتی کتابچے بھی بنائے ہیں تاکہ اگر جلد بازی میں کوئی بات بتانا رہ جائے تو وہ کتاب پڑھ لیں۔ اردو میں آسان سی چیزیں ہم نے لکھ کر دی ہیں لیکن یہ چیزیں پاکستان کی تمام آبادی پر اثر نہیں کرتیں۔ جب کوئی بیماری پھیلتی ہے تو 2 قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ایک وبا ہو تی ہے ۔ آئی ختم ہوئی، چلی گئی اور دوسری ہوتی ہے جو مستقل چلتی رہتی ہے۔ ہارٹ ڈیزیز مستقل ہے، ہمارے معاشرے میں اور بڑھ بھی رہا ہے۔ آگہی کا فقدان اس حد تک ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ایکسپرٹ بھی بنا لیتا ہے۔ اگر ایک مریض کو ہم سمجھا کر بھیجتے ہیں کہ آپ کو یہ کھانا ہے یہ کرنا ہے، پڑوسی آکر بولے گا کہ نہیں یہ سب غلط ہے۔ بہن بھائی سب بولیں گے کہ ایسا نہیں ہے میں تو ایسا نہیں کرتا ہوں ۔ بائی پاس کروا کر جائیں گے پھر جس نے بائی پاس کرایا ہے اس کو کہیں گے کہ یار تم نے سگریٹ کیوں چھوڑ دیا میں تو پی رہا ہوں، مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔ ہمارے پاس اس قسم کا کلچر ہے تو لوگوں میں وہ چیزیں رجسٹر نہیں کرتی ایک سال تک تو ہدایات کو followکرتے ہیں پھر ادھر ادھر پڑوسی ،دوست یار کی باتوں میں آکر وہ چیزیں بھول جاتے ہیں۔ ہم اب اس آگہی پر کام کریں گے۔ اس کی ضرورت بہت محسوس ہوتی ہے ۔ کارڈیالوجی کمیونٹی نے اپنے طور پر کافی چیزیں کی ہیں یعنی ہم لوگ مختلف کیمپس کرتے ہیں،پریس کلب میں جاتے ہیں، تعلیمی اداروں میں جا تے ہیں، لیکن ایمانداری سے کہوں تو شاید ہم لوگ کوئی بڑا کام نہیں کر سکے۔ ابھی بھی لوگ سگریٹ پیے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ آگہی پروگرام بڑے پیمانے پر ہونے چاہییں۔ اس میں حکومت کو شامل ہونا ہے،میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہیے ۔موثر اشتہار کاری ہونی چاہیے ۔ایک ادارے کے لیے مشکل ہے لیکن ابھی ہم نے اس پر سوچا ہے۔ بنیادی طور پریہ پبلک ہیلتھ سیکٹر والوں کا کام ہے۔ ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم اپنا preventive cardialogy کا ایک پروگرام بناتے ہیں جس میں ہم پبلک ہیلتھ کے لوگوں کوبھی شامل کریں گے اور پھر ایک dedicated task ہو ان کے پاس اور ہم میڈیا کے بھی کچھ گروپس کو ساتھ لے کر چلیں۔ ایک massive scale پر ہم یہ پروگرام کرنا چاہتے ہیں ۔ اس میں NICVD لیڈ کرے گا اور ہم کوشش کریں گے کہ ہمارے کراچی شہر کے اور بھی جو امراض قلب کے بڑے ادارے ہیں وہ بھی اس میں ہمارے ساتھ اشتراک کریں۔ یہ بہت بڑا پروگرام ہے اور اس کی ضرورت بھی بہت زیادہ ہے۔
سوال: اس بیماری سے بچنے کے لیے کیا احتیاطی تدابیر کرنی چاہییں؟
ڈاکٹر ندیم قمر: 35 سال کی عمر کے بعد سے ہر پاکستانی کو کم از کم ہر سال یا 6 ماہ میں اپنا بلڈ پریشر شوگر کا چیک اپ کروانا چاہیے۔ یہ 2 چیزیں تو بہت ضروری ہیں۔ اگر صحیح بھی ہے تب بھی سال میں ایک دفعہ تو ضرور چیک کروائیںاور اگر آپ سگریٹ نوشی کرتے ہیں تو اسے چھوڑ دیں۔ ایک ہوتے ہیں modify factor اور ایک ہوتے ہیں non modify factor۔ modify یعنی کہ آپ smokingکو modifyکرسکتے ہیں بند کر سکتے ہیں۔ شوگر آپ وزن کم کرنے سے ،پیدل چلنے سے، اِس کو اچھی طرح سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ بلڈ پریشر بھی آپ کنٹرول کر سکتے ہیں۔آپ کی فیملی ہسٹری ہے،اسے آپ کنٹرول نہیں کر سکتے وہ آپ کے بس میں نہیں ہے۔ کولیسٹرول کو بھی آپ کافی حد تک کنٹرول کر سکتے ہیں ۔ فیملی ہسٹری کے علاوہ باقی چیزیں آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ لائف اسٹائل بہت اثر کرتا ہے۔ لائف اسٹائل modification بہت ضروری ہے۔ جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو آپ کو یہ لازمی کرنا چاہیے کہ جو آپ کی پلیٹ ہے وہ رنگین ہو،اس میں مختلف رنگ ہونے چاہییں۔ اگر آپ سبزیاں اور پھل کھائیں گے تو وہ رنگین ہوگی۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں یہ ٹرینڈنہیں آیا۔ ہمارے ملک میں تھوڑے سے لوگ ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں لیکن اگر آپ اس اسپتال میں بھی دیکھ لیں اور لوگوں سے پوچھیں کہ آپ اپنا کھانا دکھائیں ،دوپہر کو کیا کھا رہے ہیں تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ اتنے مریض دیکھنے کے باوجود بھی کسی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اچھی خاصی مرغن غذائیں لوگ کھا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھیں تو جواب یہی ہوتا ہے کہ ہاں پتا ہے مگر کیا کریں ۔
سوال: اچانک دل یا سینے میں درد کی صورت میںکیاکرنا چاہیے؟
ڈاکٹر ندیم قمر: سب سے پہلے تو اگر آپ کو شک ہو رہا ہے کہ آپ کے سینے میں درد ہو رہا ہے اور پسینے چھوٹ رہے ہیں ، دباؤ محسوس ہو رہا ہوتو آپ گھر میں بیٹھے ڈسپرین کھا لیں۔ وہ پہلا stepبہت ضروری ہے اور ڈسپرین کھا کر جلد از جلد آپ نے کسی ایسے سینٹر میں پہنچنا ہے جہاں ہارٹ اٹیک کی انجیوپلاسٹی ہوتی ہے۔ اس میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ سینے میں درد ہوتا ہے ،ساتھ میں سانس کا پھولنا ،گھبراہٹ طاری ہونا، درد کا بازو کی طرف جانایہ سب علامتیں ہارٹ اٹیک کی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو بغیر سینے کے درد کے بھی ہارٹ اٹیک ہوتے ہیں۔کبھی پیٹ کی تکلیف بھی ہوتی ہے جیسے گیس کی وجہ سے درد ہوآپ اس میں فرق نہیں کر سکتے۔ اب تو ہمارا بہت تجربہ ہے۔ ہمارے پاس مریض آتے ہیں کہ گردن میں در د ہے آپ یہ سمجھے کہ شاید یہ سروائیکل کا پرابلم ہے لیکن ای سی جی کی تو پتا چلا کہ ہارٹ کا مسئلہ ہے۔ تو یہ مختلف ہوتے ہیں لیکن کلاسیکل جو ہوتا ہے اس میں سینے کے درمیان میں درد ہوتا ہے اور لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ہاتھی چڑھا ہوا ہے میرے اوپر۔ یہ دل کے مرض یا اٹیک کا کلاسیکل اظہار ہے۔ پسینہ آنا،سانس پھولنا، گھبراہٹ ہونا، لیکن یہ نشانیاں آدھے لوگوں میں ہوتی ہے اور آدھے لوگوں میں نہیں ہوتی اور خاص طور پر شوگر اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو اکثر پتا بھی نہیں چلتا کہ ان کو اٹیک ہوا ہے۔جب طبیعت زیادہ خراب ہوتی ہے تو سینٹر پہنچنے پر پتا چلتا ہے کہ آپ کو 3، 4 دن پہلے اٹیک ہوا ہے۔اگر درد ہوتا ہے تو مختلف لوگوں کا مختلف رد عمل ہوتا ہے۔اگر کوئی علاج نہ کیا جائے اور مریض پھر بھی صحیح رہے تو کئی کئی دن بھی درد ہوتا رہتا ہے کچھ لوگوں کو۔لیکن اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ مشکل ہے کہ بغیر کسی ڈاکٹر کو دکھائے کوئی گھر پر بیٹھ سکے۔وہ درد برداشت کے قابل نہیں ہوتالیکن کوئی مخصوص ریکارڈ نہیں ہے کہ کتنی دیر تک درد چلتا ہے۔ اس میں ایک چیز ضرور بتانا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک کے مریض میں ٹائم بہت اہمیت کاحامل ہے۔ جتنا ٹائم آپ ضائع کریں گے اتنا نقصان زیادہ ہو گا۔اب اگر ٹائم زیادہ ضائع ہو گیا اور مریض کی زندگی پھر بھی بچ گئی تو اس کا دل اتنا کمزور ہو جائے گا کہ وہ کسی کام کے قابل نہیں رہے گا۔
سوال : NICVD ان مریضوں کو کیا اور کیسی سہولیات و علاج فراہم کر رہا ہے؟
ڈاکٹر ندیم قمر: میں جب 3 سال پہلے یہاں ڈائریکٹر بنا تو یہ احساس ہوا کہ اب ہارٹ اٹیک کا علاج بالکل تبدیل ہو چکا تھا،نیو یارک ، لندن میں لوگ اب ہارٹ اٹیک کی دوائیاں نہیں لے رہے تھے بلکہ انجیو پلاسٹی کر رہے تھے۔تو ہم نے یہاں پہلا کام یہ کیا کہ ہارٹ اٹیک کی انجیوپلاسٹنگ شروع کر دی۔ اس کو ہم پرائمری انجیوپلاسٹنگ کہتے ہیں۔اُس کا بھی ایک دورانیہ ہے۔90منٹ کے اندر اگر آپ پہنچ گئے اور آپ کی شریان کھل گئی تو آپ کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ جتنا ٹائم زیادہ گزرتا جائے گا اتنا فائدہ کم ہو گا۔ تو جلد از جلد پہنچنا ہے۔ ہم نے الحمدللہ 2017ء میں 5 ہزار 875 کے قریب ہارٹ کی انجیوپلاسٹنگ کی ہیں۔ اس طرح سے ہم اس وقت دنیاکا سب سے بڑا امراض قلب کا ادارہ بن چکے ہیں اور ہمارا جو سارا ڈیٹا ہے وہ NCDRپر انٹرنیشنل رجسٹرڈ ہے۔ ہر چیز ہم مانیٹر کرتے ہیں ۔ ہمارا کام انٹرنیشنلی مانیٹر ہو رہا ہوتا ہے۔ دنیا سے ہم کسی بھی صورت میں کم نہیں ہیں۔یہ تو کراچی کا مریض ہو گیا۔ اندرون سندھ میں ہم نے اپنے سیٹیلائٹ ( برانچز)شروع کر دی ہیں۔ ٹنڈو محمد خان، لاڑکانہ، حیدرآباد، سہون، اور اب سکھر میں بھی شروع ہونے والا ہے اور یہ کام وہاں بھی ہو گا۔ کسی کو اگر ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو وہ فوراً جاتا ہے اور علاج شروع ہو جاتا ہے ۔اس کے لیے ہمارا ایک جامع نظام مرتب ہے ، جس میں رنگ، نسل ، مذہب، وی آئی پی، عام آدمی سب کو ہی ایک جیسا بہترین علاج فراہم کیا جاتا ہے ۔کوئی سفارش، ٹیلی فون ، پرچی کا تصور ہی نہیں۔ زندگی موت اللہ کے ہاتھ ہی میں ہے ،ایک بار ہم تک پہنچ جائیں پھر اللہ کے عطا کردہ علم کے مطابق آپ کی تکلیف دور کرنے پوری ذمے داری ہم پرہوتی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ لوگ کال کرتے تھے مجھے، کہ میرا مریض لاڑکانہ جا رہا ہے آپ فون کر لیں ،میں کہتا ہوں کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ اب سسٹم ایسا بنا ہوا ہے کہ سسٹم آٹومیٹیک مریض دیکھ کر فوری متحرک ہوجاتاہے۔ ہمارے ہر ایک آدمی کو پتا ہے کہ مریض کو اگر ضرورت ہے تواُس کو کہاں پہنچانا ہے اور جو کر رہا ہے اوپر اس کو پتا ہے کہ اس ٹائم کے اندر اس کی شریان کھولنی ہے ۔تو اس طرح پورا سسٹم کام کرتا ہے ۔ ہمارے لاڑکانہ، حیدرآبادسینٹر تو بہت ایکٹیو ہیں اور کراچی کے نجی اداروں سے زیادہ انجیوپلاسٹنگ کر رہے ہیں اور یہ سب مفت میں ہے اس میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ٹائم ضائع نہیں ہوتاکہ یہ پرچی دو ،وہ دوائی لے آئو۔سب چیزیں ہماری ہیں اور سب مفت فراہم کی جاتی ہیں ۔ آپ ایک دفعہ NICVDمیں اندر آگئے تو پھر آپ کو کوئی پیسہ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس لیے ہمارا پروگرام بہت اچھا چل رہا ہے۔ہمارے پروگرام کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی اور شناخت قائم ہے ۔
سوال: شہر بھر میں چیسٹ پین یونٹس کا تجربہ کیسا رہا اور بچوں کے دل میں سوراخ کے علاج کے لیے کیا سہولیات دے رہے ہیں؟یہ بھی بتائیں کہ اندرون سندھ کیسے لوگ استفادہ کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر ندیم قمر: ابھی میں نے آپ کو اپنے سیٹیلائٹ بتائے ۔ سکھر والا بہت بڑا ہے ہمارا 300بستروں پر مشتمل اسپتال ہے۔اس کے بعد ہم نوابشاہ جا رہے ہیں ان شاء اللہ اور پھر ہم مٹھی جائیں گے اور کراچی میں بھی ایک اور سیٹیلائٹ کریں گے۔
(باقی صفحہ 09پر)
حکومت سندھ کا ایک اور کارڈیالوجی یونٹ ہمارا سیٹیلائٹ ہو گاتو اس طرح سے سندھ کا ہر باشندہ اس تک رسائی حاصل کر سکے گا۔ 90 منٹ کے اندر ہمارے کسی بھی سیٹیلائٹ پر پہنچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے دوسرا کام یہ کیا کہ ہم نے کراچی میں موبائلchest pain units لگائے ہیں ۔ اس وقت شہر میں 6 کام کر رہے ہیں۔ پہلے ہم نے گلشن چورنگی پر کھڑا کیا ،پھر ہم نے گلبائی پر، اس کے بعد ملیر ہالٹ،قیوم آباد ،ناگن چورنگی اور ابھی ہمارا آئی آئی چندریگر پر چل رہا ہے۔ ان یونٹس کی جو کارکردگی ہے وہ غیر معمولی ہے۔ اب یہاں ایک ڈاکٹر بیٹھا ہے اس کے پاس ای سی جی ہے ایک نرس ہے ،مریض جیسے ہی آتا ہے اس کا ای سی جی لیا جاتا ہے اگر اس کو اٹیک ہوتا ہے تو اس کی ٹریٹمنٹ فوری دے کر فوری طور پر ایمبولینس میں NICVD ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ یہاں پر اس کی ہارٹ اٹیک کی انجیوپلاسٹی ہو جاتی ہے۔ اب آپ کراچی میں ٹریفک کا رش دیکھتے ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ کوئی قائد آباد سے 90 منٹ میں جناح اسپتال یا سرجانی سے جناح اسپتال پہنچ سکے تو یہ جو تاخیر ہوتی ہیں اس کو ہم نے beat کرنے کے لیے یہ کنٹینریونٹس شروع کیے ہیں۔ یہ سہولت 24گھنٹے free of cost تمام شہریوں کے لیے بلا تخصیص موجود ہے۔اور آپ حیران ہوں گے کہ جولائی میں ہم نے یہ کنٹینرز شروع کیے تھے اور دسمبر کا ڈیٹا بتا تا ہوں کہ 25000مریض اب تک دیکھے گئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے ۔ ایک آدمی کا گھر ناگن چورنگی پر ہے ۔ بوڑھا ہے اس کی بیوی ہے، بچہ کام پر گیا ہے ،اب اچانک اُس کو درد ہو رہا ہے تو اُس کے لیے ناگن چورنگی پر کنٹینر قریب کھڑا ہے۔ وہ جائے گا ادھر اس کو دیکھا جائے گااگر کچھ نہیں بھی ہے تو اس کو بتا دے گا کہ آپ کو دل کی تکلیف نہیں ہے، آپ جائیں اگر پرابلم ہو گا تو یہ خود ہی ٹرانسفر کریں گے پھر ہماری ذمے داری ہے۔ان 25 ہزار میں سے11000ایسے مریض تھے جن کو ہارٹ کا پرابلم نہیں تھا۔ 1583 ایسے مریض تھے جن کو اٹیک ہو رہا تھا اور انہیں NICVDٹرانسفر کیا گیا۔ مجموعی طور پر بہت اچھا response ہے اور میری خواہش یہ ہے کہ ہم 25 مزید ایسے کنٹینر کراچی میں کھڑے کریں۔ جہاں تک مرکزی اسپتال کی بات ہے تو میں یہ بتاؤںکہ ہمارے اس اسپتال کے ایمرجنسی روم میں 800 مریض روزانہ آتے ہیں اور او پی ڈی میں تقریباً 2000 مریض روزانہ آجاتے ہیں۔ لاکھوں مریضوں کا علاج ہوتا ہے اور سب کچھ مفت میںہوتا ہے۔ دنیا کی مہنگی ترین ڈیوائسز جو ICDs, CRTsجو کمزور دل میں لگتے ہیں ہم وہ بھی فری دیتے ہیں۔ ہم بائی پاس سرجری فری کرتے ہیں۔ ہم بچوں کا علاج بھی فری کرتے ہیں۔ بچوں میں پیدائشی دل کا سوراخ سمیت مختلف قسم کی بیماریاں ہوتی ہیں۔ جن بچوں کی مائیں aware نہیں ہوتیں یعنی ماؤں کی غذا دوران حمل صحیح نہیں ہوتی تو اثرات بچے پر پڑتے ہیں اس سوراخ کو بند کرنے کے لیے آپریشن ہوتے ہیں انجیوگرافی کے ذریعے ڈیوائسز ڈالے جاتے ہیں تو NICVDکا جو بچوں کا ڈیپارٹمنٹ ہے وہ پاکستان کا سب سے بڑا ڈیپارٹمنٹ ہے جہاں پورے ملک سے لوگ بچوں کو علاج کے لیے لے کرآتے ہیں۔ اس کے لیے اب ہم ایک الگ عمارت بنا رہیہیں جو صرف بچوں کے لیے ہوگی۔ اسی طرح دل کے اندر بیٹری جسے pace maker کہتے ہیں وہ بھی ہم فراہم کرتے ہیں ، یہ ہمارے دل کے اندرایک پاور اسٹیشن کی مانند ہوتا ہے ۔ ایک simple pace maker ہوتا ہے اور ایک complex pace maker ہوتا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ مریض جب نازک حالت میں ہوتا ہے تو اکثر ان کو شاکس دینا پڑتا ہے اُس سے وہ بحال ہو جاتے ہیں ۔ ایسی ہی ڈیوائس ایجاد کی گئی ہیں جو اندر سے ہی شاکس دے کر دل کو کام پر لگائے رکھتی ہیں۔وہ آلہ خود readکرتا ہے جب اس کو feel ہوتا ہے تو وہ automatic شاکس دیتا ہے ۔ سائنس کے ثبوتوں کی روشنی میں اس سے کئی زندگیاں بچ جاتی ہیں۔ اس کی قیمتتقریباً ساڑھے 7 لاکھ روپے سے 17 لاکھ تک ہے ۔تو اللہ کا شکر ہے کہ ہم یہ بھی مریضوںکو مکمل فری دے رہے ہیں ۔
سوال: ڈاکٹر صاحب اس پورے پروجیکٹ کی فنڈنگ کیسے ہوتی ہے؟
ڈاکٹر ندیم قمر: اس کی 95 فیصد فنڈنگ سندھ حکومت کرتی ہے ۔ ہمیں حکومت نے ہر موقع پرمکمل تعاون کیا ہے بلکہ یہ بچوں کا اسپتال بھی سندھ گورنمنٹ ہی بنا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ کار کردگی دکھائیں گے تو اعتماد بڑھے گا اور آپ کی راہیں کھلیں گی۔ جب آپ کچھ اکر کے دکھائیں آپ کو اور سپورٹ ملے گی ۔اس طرح سے میں سمجھتا ہوں میرا یہ تجربہ ہے کہ کچھ کام کر کے حکومت کو دکھائیں ،ہم یہ کر رہے ہیں اور یہ کرنا چاہتے ہیں ہمیں اور فنڈنگ چاہئے تو گورنمنٹ دیتی ہے۔ گورنمنٹ وہاں نہیں دیتی جہاں پر ان کو نظر نہیں آتا کہ پرفارمنس نہیں ہے۔پہلے یہ ادارہ وفاقی گورنمنٹ کے پاس تھا ۔18ویں ترمیم کے بعد سے یہ سندھ حکومت کے پاس آیا۔اس کا ایکٹ آیا ہے دسمبر 2014میں ۔ پھر یہ interior sindh میں رہا۔ دسمبر 2014ء میں اس کا ایکٹ آیا اور میں فروری 2015ء میں یہاں کا ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بنا۔ اُس وقت ہماری فنڈنگ 70 کروڑ تھی۔ پھر سندھ گورنمنٹ نے ہمارا کام دیکھا تو 1.1 ارب کی۔ پھر اور بڑھا دی۔ اس وقت 4 ارب ہمیں ملتے ہیں۔ یہ بجٹ اتنا ہے جتنا SIUTکو ملتا ہے ۔
سوال: NICVD کا مستقبل کا کیا پروگرام ہے ؟
ڈاکٹر ندیم قمر: ہمارے تین چار پروگرام ہیں ۔ سب سے پہلے تو ہم اپنی ریسرچ پر توجہ دے رہے ہیں ۔ ایک سال پہلے ہی ہم نے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ بنایا ہے‘ جو اس وقت تو ڈیٹا کلکشن کر رہا ہے۔ہم چاہیں گے کہ دنیا کی جو مختلف رجسٹریز ہیں وہ ہمارے ساتھ participateکریں تاکہ NICVD کا نام بین الاقوامی سطح پر مزید نمایاں ہو۔ آپ کتنا بھی کام کر لیں لیکن اگر آپ اپنا کام پبلش نہیں کریں گے تو اس کا اتنا اثر نہیں ہو گا اور پبلش لوکل جرنل میں نہیں بلکہ بین الاقوامی جر نل میں آپ کو اپنا ڈیٹا پبلش کرنا ضروری ہے۔ تو ہمارا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ بہت فعال کام کر رہا ہے۔ ہمارے پاس مریضوںکی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم preventive cardialogy پر کام کریں اور سائنٹیفک طریقے سے کریں۔ اس طرح سے کریں کہ اس کا impactآئے۔ آبادی پر فرق پڑے۔ ٹائم نہ ضائع ہو۔ اور تیسرا سندھ کے تمام اضلاع میں جو کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ ہیں ان کے ڈسٹرکٹ اسپتالوں کوہم چیسٹ ہین یونٹ کے طور پر چلائیں، جیسے ہمارے یہاں چل رہے ہیں اور ہم ان کو اپنے سیٹیلائٹ سے access کریں۔ اس طرح سے بہت زیادہ ہمارا ایک پورا نیٹ ورک بن جائے گا۔ یہ بھی مستقبل ایک پروگرام ہے۔ شاید 2018-19ء تک ۔ آپ اگر مجھ سے یہ پوچھتے کہ آپ نے اتنا تیزی سے کیسے کام کیا تو میرا جواب یہ ہوتا کہ مجھے خود پتا نہیں کہ کیسے ہو گیا۔ میں خود حیران ہوں کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ شاہ لطیف کا ایک شعر کا مفہوم ہے کہ ’وہ خود ہی آئے گا لیکن میں بھی تو ایک قدم بڑھائوں ‘۔
سوال: اخراجات کی سب سے بڑی مدکیا رہتی ہے؟
ڈاکٹر ندیم قمر: ہمارے سب سے بڑے اخراجات اس وقت مفت خدمات کے ہیں۔ ہمارے جتنے بھی آلات و سامان ہیں وہ بہترین کوالٹی امریکن اسٹینڈرڈ استعمال کیے جاتے ہیں۔وہ کئی یورپین بھی نہیں استعمال کرتے۔ چین تو پھر دور کی بات ہے۔ لازمی ہے کہ ان چیزوں کی قیمت بھی زیادہ ہوگی ،آج کل تو ہم اس میں بھی پھنس گئے ہیں کہ ڈالر 100روپے سے 110ہو گیا تو وہ بھی ہمارے لیے ایک مسئلہ پیدا کرتا ہے۔اس کے علاوہ جو مہنگی ڈیوائسز ہیں ، سرجری ہے، بائی پاس ہے، pace meter، ICDs، یہ سب بھی فری کرتے ہیں، ہم state of the artسارا کام کرتے ہیں۔ دوائیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں ، ہیلتھ سروس، لیبارٹری بھی فری ہوتی ہے۔ ہر چیز کی cost ہے ۔ اس کے بعد ہمارے اسٹاف کی تنخواہیں ہوتی ہیں۔ میں آپ کو ایک چیز بتائوں کہ پبلک سیکٹر اسپتال کے فیل ہونے کی بہت بڑی وجہ اسٹاف اور مریضوں کا ریشو ہے۔ مریض اور نرس کا ریشو بہت خراب ہے۔ 100مریضوں کو ایک نرس دیکھ رہی ہوتی ہے، وہ کیسے دیکھے گی۔ یہ ساری چیزیں definedہیں۔ نرسنگ کا تو پاکستان نرسنگ کونسل کی defined ریشوز ہیں۔ وارڈ میں اتنا ، آئی سی یو میں اتنا ہو گا۔ آپ کو وہ کرنا پڑے گا،نہیں تو patient care امپرو نہیں ہو گا۔ ہم اپنے ادارے میں 100فیصد تو نہیں لیکن کافی حد تک اس ریشو کر برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمارا اسٹاف تقریباً 2000 کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ سیٹیلائٹ ( برانچوں)کا بھی اسٹاف ہے۔ سیٹیلائٹ کے لیے ہم جو لوگ لیتے ہیں ان کو یہاں پہلے ایک سال تربیت دیتے ہیں۔ تربیت دے کر پورے اطمینان کے بعد ہی اندرون سندھ اپنے سیٹیلائٹ میں بھیجتے ہیں۔
سوال: کوئی پیغام نئے ڈاکٹرز، یوتھ کے لیے؟
ڈاکٹر ندیم قمر: میں جب پاکستان آیا تو اسی جذبے سے آیا کہ ان غریبوں کا علاج کروں گا، یہی سوچ آپ کو متحرک رکھتی ہے اور انہی کے ذریعے آپ کو عزت ملتی ہے ۔ آپ پھر ایسی جگہ پہنچ جائیں گے کہ آپ کو کوئی ہلا نہیں سکے گا۔ ہمارے ایک استاد نے یہاں شروع کے دنوں میں مجھے یہ سمجھایا تھا کہ ان غریبوں کی خدمت کرو گے تو بہت ترقی کرو گے۔ پیسہ خود ہی آجاتاہے۔ بس یہی پیغام ہے کہ اپنے ملک سے محبت کریں اس کی خدمت کریں یہی ہماری پہچان ہے ۔