اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/خبر ایجنسی) زینب قتل کیس کے مجرم کو سرِعام پھانسی دینے کے معاملے پر اسلامی نظریاتی کونسل اور چاروں صوبوں نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے معاشرے پر منفی اثرات ہوسکتے ہیں، خون بہا لینے کی تسکین کے لیے متاثرہ خاندانوں کی پھانسی گھاٹ کے سامنے موجودگی کو یقینی بنایا جاسکتاہے، اسلام اور قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین جاوید عباسی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل اور چاروں صوبوں کے محکمہ داخلہ اور جیل خانہ جات کے صوبائی حکام، سیکرٹری قانون و انصاف چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی زینب قتل کیس کے مجرم عمران علی کو سرِعام پھانسی دینے کی مخالفت کر دی ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کا اس معاملے کی مخالفت میں کہنا تھا کہ چوک، چوراہے کے بجائے جیل کے اندر پھانسی دی جائے لیکن مناظر میڈیا پر دکھائے جائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ انسانی جان لینے والے مجرم کی پھانسی کے موقع پر شرعی رو سے 40 لوگ تک موجود ہوسکتے ہیں۔ لیکن صوبوں نے رائے دی کہ پھانسی کے مناظر میڈیا پر بھی نہ دکھائے جائیں۔ آئی جی جیل پنجاب نے کہا کہ سرِعام پھانسی دینے سے بچوں پر منفی اثرات پڑیں گے، اقدام بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔ آئی جی جیل بلوچستان نے موقف اختیار کیا کہ سرِعام پھانسی دے کر پورے معاشرے کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ سیکرٹری داخلہ پنجاب نے کہا کہ پھانسی کے وقت لوگوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ وزارتِ قانون کا کہنا تھا کہ سرِعام پھانسی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور ہوگی، عدالتی فیصلہ بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ کمیٹی نے وزارتِ قانون کو کہا ہے کہ ایک ہفتے میں بتایا جائے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ سرِعام پھانسی میں کیسے رکاوٹ ہے؟ پینل کوڈ میں ترمیم کی ضرورت ہے یا نہیں؟