جائزہ ضرور لیں

232

لودھراں کے ضمنی انتخاب کے نتیجے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے زور لگا رہی تھیں اور جس نے زیادہ محنت کی اسے محنت کا پھل مل گیا۔ ہاں اگر سیاسی تجزیہ کریں تو بہت سے سوالات ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کیوں جیتی اور تحریک انصاف کیوں ہاری؟ لیکن پیپلزپارٹی بھی تجزیہ کرنا چاہتی ہے، قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت اس امر کا جائزہ لے گی کہ گزشتہ دو مختلف ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ کیوں نہیں ملے، بالکل کرنا چاہیے اسے حق ہے لیکن تجزیے سے قبل اُسے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، بس یہی اس کا تجزیہ ہے، اگر اچھی طرح گریبان میں جھانک لیا تو سارے حقائق بھی سامنے آجائیں گے، لودھراں ہی میں تین ہزار سے کچھ زیادہ ووٹوں اور ضمانت کی ضبطی کا مسئلہ نہیں، اس سے پہلے حلقہ این، اے 120 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا، یہ تو ایکشن ری پلے ہے، پنجاب میں جتنے بھی ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے امیدوار اُتارے ان سب کا یہی حال ہوا، ہر حلقے میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہی میں ہوا جس کی بنا پر کہا جارہا ہے کہ اب 2018ء کا انتخاب براہ راست مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہی ہوگا۔
پیپلز پارٹی اب قومی نہیں علاقائی جماعت کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ قمر زمان کائرہ نے تو پھر بھی درد مندی ظاہر کی، پارٹی کے دوسرے عہداروں نے تو یہ تکلف بھی گوارا نہیں کیا اور تو اور چیئرمین بلاول زرداری سے مسلسل یہ کہلایا جارہا ہے کہ 2018ء میں پیپلز پارٹی جیتے گی خود آصف علی زرداری بھی یہی سب کہہ رہے ہیں اور سیاسی ملاقاتیں اور میٹنگیں کیے جارہے ہیں، موچی دروازہ والے جلسے کے بعد سب پھولے نہیں سماتے تھے تاہم لودھراں نے غبارے سے ہوا نکال دی۔ پیپلز پارٹی کے خیر خواہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی کا یہ حال پارٹی کے بنیادی اصولوں کو ترک کرنے سے ہوا ہے یہ واقعی بہت اہم بات ہے سچ یہی ہے کہ پیپلزپارٹی کیا، جو بھی سیاسی جماعت بھی اپنا بنیادی خیال، منشور، اور اصول ترک کردیتی ہے وہ لاکھ کوشش کرے، اسے کوئی پھر خیرات میں ووٹ نہیں دیتا اور کوئی سیاسی اتحاد بھی اسے آکسیجن نہیں دے سکتا۔
سیاسی جماعتیں شاید یہ بات بھول چکی ہیں کہ آج کی سیاست اور سیاسی میدان 1970 والے نہیں ہیں، عرصہ ہوا یہ زمانہ گزر چکا، آج کی حقیقت یہ ہے کہ سیاست اور شخصیت کے اُتار چڑھاؤ میں میڈیا کا کردار بہت اہمیت اختیار کرچکا ہے آج تو آئی، ٹی کا زمانہ ہے، الیکٹرونک میڈیا راج کررہا ہے اس کے باوجود پرنٹ میڈیا کی اہمیت ختم اور کم نہیں ہوئی، اخبارات کی سرخیاں سارا دن نائی کی دکان اور تندور پر زیر بحث رہتی ہیں جس سیاسی جماعت کے حق میں ان دو جگہوں پر دلائل دیے جاتے ہوں وہی جماعت سرخرو ہوتی ہے اب پیپلزپارٹی، اور ملک کی ہر سیاسی جماعت تجزیہ کرتے ہوئے دیکھے کہ وہ نائی کی دکان اور گلی محلے کے تندوروں پر کتنی مقبول ہے؟ دور جانے کی ضرورت ہی نہیں، ہر سیاسی جماعت کو تجزیے کا جواب مل جائے گا دوسری اہم بات، پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور سیاسی جماعت، جس نے میڈیا کو نظر انداز کیا اُسے عوام نے نظر اندازکردیا۔ پیپلزپارٹی کی میڈیا مینجمنٹ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں کہاں ہے؟ میڈیا والوں سے پارٹی کے شعبہ اطلاعات کے حضرات اور سیکرٹری اطلاعات کے بھی رابطے ہیں؟ یہی سوال دوسری جماعتوں سے بھی ہے ہاں کچھ سیاسی شخصیات ایسی بھی ہیں جنہیں میڈیا کی ضرورت نہیں، جیسے عمران خان، نواز شریف، بے نظیر بھٹو، ماضی میں یہ خوبی ذوالفقار علی بھٹو کے لیے تھی، آج پیپلزپارٹی کے پاس ایسی کوئی شخصیت نہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے اپنے پتے بہت اچھی طرح کھیلے ہیں لہٰذا وہ نتیجہ بھی حاصل کر رہی ہے، تحریک انصاف سے اگر عمران خان کو الگ کردیا جائے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ پوری تحریک انصاف میں ایک بھی عمران خان جیسا نہیں ہے، مسلم لیگ(ن) نے اپنی ٹیم تیار کی ہوئی ہے، دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنا جائزہ لیں کہ وہ میڈیا مینجمنٹ میں کہاں کھڑی ہیں، یہ کہہ دینا کہ میڈیا بلیک میل کرتا ہے اور اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کس کس کو کیسے توجہ دیں، یہ سب بے وزن دلائل ہیں یہ بات غور طلب ہے کہ سیاسی میدان میں اگر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہی کو رہنا ہے تو پھر دوسری جماعتوں کو کیا کرنا ہے؟ پیپلزپارٹی کا المیہ یہ ہے کہ بلاول پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں، ان کو اگلے حکومتی سربراہ کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے لیکن پارٹی ان کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے یہ بہت بڑا سوال ہے، اس سوال کا جواب صرف آصف علی زرداری ہی دے سکتے ہیں۔
دوسری سیاسی جماعتیں اپنا اپنا جواب خود تلاش کریں پیپلزپارٹی کے لیے اس روز ایک بڑا امتحان تھا جس روز شاہد خاقان عباسی اور بلاول نے ایک فورم سے خطاب کیا مگر کیا ہوا وزیر اعظم نے ان کا نام لے کر تعریف کی تھی، لیکن بلاول کی جماعت نے ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا کہ ان کے چیئرمین نے امریکا میں جو کچھ کہا اور جو کیا اس کی باقاعدہ تشہیر ہو، پارٹی کے لیے مشورہ یہی ہے کہ اپنی ناکامیوں کا تجزیہ بھی یہیں سے شروع کیا جائے۔ اب کچھ ذکر اسلام آباد کی شاہراہ دستور کا، جس پر عدالت عظمیٰ، پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوان صدر کی عمارتیں ہیں، یہ شاہراہ آج کل عوامی اور سیاسی تبصروں کا مرکز اور ماخذ بنی ہوئی ہے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ عالمی سطح پر ہماری شاہراہ دستور کے فیصلوں پر کیا کہا جارہا ہے۔