سینیٹ کے لیے ن لیگ کی فہرست کالعدم

360

حسب توقع جوابی بیانات آنے لگے ہیں۔ اور بیانات کیا، یہ عدلیہ کی نیت پر حملے ہیں۔ لیکن ہر طرف سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف اور ان کے حواریوں کے پاس اور چارہ ہی کیا ہے۔ عدالت نے میاں نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت سے فارغ کردیا اور اگلے دن الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے لیے ن لیگ کے جاری کردہ ٹکٹ بھی کالعدم قرار دے دیے۔ اب وہ حضرات آزاد حیثیت سے الیکشن لڑسکتے ہیں۔ ایسے میں امکان تو یہی ہے کہ جن افراد کو نواز شریف نے سینیٹ کے لیے نامزد کیا تھا آزاد حیثیت میں بھی نواز شریف کے نام پر وہ ہی منتخب ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ کامیاب ہونے پر سینیٹ میں جاکر وہ ’ن‘ گروپ بناکر بیٹھیں گے۔ لیکن کیا اس طرح عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بے اثر نہیں ہوجائے گا۔ جہاں تک حکمران مسلم لیگ کی صدارت کا تعلق ہے تو اس پر کلثوم نواز یا خاندان شریفیہ کا کوئی اور شخص بٹھادیا جائے گا مگر حکم تو نواز شریف ہی کا چلے گا جیسے بظاہر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہیں لیکن حکم نواز شریف کا چل رہا ہے۔ ممکن ہے یہ جملہ سخت ہو کہ شاہد عباسی ڈمی وزیراعظم ہیں۔ اسی طرح ن لیگ کا نیا صدر ہو یا نواز شریف کی فہرست میں موجود سینیٹ کے ارکان ہوں، ان سب پر مہر نواز شریف ہی کی لگے گی۔ طلال چودھری اور دانیال عزیز جیسے میاں صاحب کے سپاہیوں کا کہناہے کہ نواز شریف مائنس نہیں ہوں گے۔ رہیں مریم اورنگزیب وہ چونکہ حکمران جماعت کی ترجمان ہیں اس لیے اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے وہ کچھ بھی کہہ سکتی ہیں۔ فرمایا کہ توقع تھی ایسا ہی فیصلہ آئے گا۔ طلال چودھری نے انکشاف کیا کہ عدالتی فیصلے سے جمہوری اقدار کو نقصان ہوگا۔ سیدھی طرح کہا جائے کہ نواز لیگ کو الیکشن نہیں لڑنے دیں گے۔ ابھی تک ایسا فیصلہ تو نہیں آیا، یہ اور بات کہ صرف نواز شریف کو پوری پارٹی سمجھا جائے۔ کبھی ایم کیو ایم میں بھی یہی تاثر تھا کہ الطاف حسین ہی سب کچھ ہے۔ اب طلال چودھری اسی قسم کی بات کررہے ہیں کہ جس کو نواز شریف چاہیں گے وہ ہی ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر بنے گا۔ الطاف حسین کے بارے میں بھی یہی کہاجاتا تھا۔ ن لیگ والے دونوں میں کچھ فرق تو باقی رہنے دیں۔ طلال چودھری یہ بات یاد رکھیں کہ اگر عدالتی فیصلوں سے جمہوری اقدار کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو یقین کرلیں کہ وہ اقدار جمہوری ہرگز نہیں۔ عدالتی فیصلوں کو اگر انتقام قرار دیا جائے تو کیا یہ جمہوری اقدار ہیں؟ میاں نواز شریف کا کہناہے کہ عدالت نے سب کچھ چھین لیا اب میرا نام بھی چھین لے۔ نواز شریف اپنا نام اپنے پاس رکھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے بھی کہاتھا کہ فلاں کام نہ کیا تو میرا نام بدل دینا۔ نہ کام ہوا نہ نام بدلا چنانچہ نواز شریف بھی نام بدلنے کے بجائے کام بدلیں، فائدہ ہوگا۔ بیشتر سیاسی جماعتوں پر یاتو مافیا قابض ہے یا خاندانی قبضہ ہے۔ پیپلزپارٹی پر بھی ایک خاندان کا قبضہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام مفتی محمود مرحوم کی دین ہے۔ اے این پی پر بھی ایک خاندان کا قبضہ ہے۔ تحریک انصاف کا مستقبل ابھی واضح نہیں ہے۔ عمران خان کی اولاد ابھی کسی قابل نہیں ہوئی۔ ایم کیو ایم پر بھی الطاف مافیا کا قبضہ رہا اور اگر الطاف حسین نشے کی زیادتی میں اول فول نہ بکتا تو آج بھی ’’بھائی‘‘ کا قبضہ ہوتا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سوا کسی جماعت میں انتخابات کرنے کا چلن ہی نظر نہیں آتا۔ چنانچہ جو ایک بار پارٹی پر قابض ہوگیا وہ تا عمر یا اس کے بعد اس کی اولاد پارٹی کو خاندانی ورثہ بنائے رہی۔ اب یہ پہلی بار ہوا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اپنے تاریخی فیصلے سے ایک پارٹی سربراہ کو ہٹایا ہے لیکن اس پر خاندانی قبضہ ختم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ گزشتہ بدھ کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے واضح کیاتھا کہ ملک کا آئین پارلیمان سے بالاتر ہے اور پارلیمان اگر کوئی قانون سازی کرتی ہے تو اس کا جائزہ لینا عدالت عظمیٰ کا آئینی حق ہے۔ اس کے جواب میں میاں نواز شریف طنز فرماتے ہیں کہ ’’عدلیہ آئین کو بالاتر سمجھتی تو 70 سال سے جمہوریت رسوا نہ ہورہی ہوتی۔ 1973ء سے آج تک آئین کو کوئی زخم پارلیمنٹ نے نہیں لگایا البتہ 32 برس آمروں نے آئین کو ردی کی ٹوکری میں ضرور ڈالے رکھا۔ آئین کو سارے زخم عدلیہ کے کچھ ججوں کی مدد سے آمروں نے لگائے جس پر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔‘‘ میاں صاحب کی یہ بات خواہ کتنی ہی درست ہو لیکن اس کی زد میں وہ خود بھی آرہے ہیں۔ آمروں پر تنقید کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ خود وہ بھی ایک آمر جنرل ضیا الحق کے چہیتے تھے اور ان کے ہاتھ مضبوط کیے جنہوں نے آئین کو کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار دیا تھا۔ میاں صاحب جنرل ضیا الحق کے سائے ہی میں پروان چڑھے اور سیاست میں داخل ہوئے۔ کم از کم وہ تو اپنے محسن کو رسوا نہ کریں۔ وہ یہ بھی بتائیں کہ جب جمہوریت کو رسوا کیا جارہاتھا اور آئین کو زخم لگائے جارہے تھے تو وہ اس وقت کیا کررہے تھے؟ کیا انہوں نے جنرل ضیا الحق کے خلاف آواز بلند کی؟ پیپلزپارٹی کے پاس تو آمروں پر تنقید کرنے کا منہ ہی نہیں ہے کہ اس پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کو اپنا ڈیڈی بنا رکھا تھا اور پھر ناخلف بھی ثابت ہوئے۔ وہ اقتدار میں بھی جنرلوں کی مدد سے آئے اور تاریخ میں پہلے اور شاید آخری سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے اور پھر فوج ہی کے ہاتھوں انجام کو پہنچے۔ میاں صاحب نے اپنے بیانات سے ایک ایسا پنڈورا باکس کھول دیا ہے جس میں سے نکلنے والی بلائیں ان کے بھی دامن گیر ہوسکتی ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کہتے ہیں کہ پارلیمان نواز شریف کی سزا بھی ختم کرسکتی ہے۔ یعنی پارلیمان عدلیہ سے بالاتر ہے۔ عدلیہ کا موقف واضح ہے کہ قانون بنانے کا اختیار پارلیمان کا ہے لیکن قانون کا جائزہ لینے کا حق عدلیہ ہے۔ سینیر قانون دان ایس ایم ظفر کا کہناہے کہ قانون آئین کے تابع ہے چنانچہ اگر پارلیمنٹ آئین سے متصادم قانون متفقہ طور پر بھی منظور کرلے تو عدالت عظمیٰ اس کو مسترد کرسکتی ہے۔ نواز شریف کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں۔ فیصلہ آئین و قانون کی روح کے مطابق ہے۔ بہر حال کون بالادست ہے، اس پر ماہرین قانون کی بحث چلے گی اور عدالت اپنا فیصلہ کرتی رہے گی۔ اس موقع پر تحریک انصاف کا جشن منانا اور مٹھائیاں تقسیم کرنا نہ صرف بے وقت بلکہ بے وقعت بھی ہے۔ اس سے تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں الٹا نقصان ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کیا عدالتی فیصلوں سے نواز شریف کو سیاسی نقصان پہنچے گا یا ان کے لیے ہمدردیاں بڑھیں گی۔