قانون کی کمزور حکمرانی

214

عدلیہ اور حکمران مسلم لیگ میں محاذ آرائی بڑھتی جارہی ہے۔ نا اہل وزیراعظم نواز شریف نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون نہیں، فیصلے بغض میں دیے جارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب مجھے زندگی بھر کے لیے نا اہل کرنے پر غور ہورہاہے۔ اس پر عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ محاذ آرائی نہیں، قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وکلا میرا ساتھ دیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ وہ منافق نہیں، معاشرے سے نا انصافی کے خاتمے کا آغاز کردیا ہے۔ یہ فرائض میں شامل ہے، کسی پر احسان نہیں، اپنی ذمے داری پوری کررہاہوں، میں سماجی برائیوں سے نبرد آزما ہوں۔ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ایک عرصے سے مفقود ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی شعبے میں قانون کی حکمرانی نظر نہیں آتی۔ روزانہ ہی ایسی خبریں آتی ہیں کہ فلاں محکمے، فلاں شعبے میں اربوں روپے کا کرپشن کیا گیا۔ لوٹ مار کرنے والے ملک سے فرار بھی ہوجاتے ہیں اور قانون کہیں کسی کونے میں پڑا اونگھتا رہتا ہے۔ قانون کی حکمرانی ہوتی تو بد عنوانی اور لوٹ مار پر آغاز ہی میں ہاتھ ڈالاجاتا۔ برسوں بعد جب لٹیرے اور خائن خوب عیاشی کرلیتے ہیں تو قانون کی آنکھ کھلتی ہے لیکن خود سے نہیں، کسی کے ٹھیلنے سے۔ کبھی کوئی درخواست دے کر متوجہ کرتا ہے اور کبھی قانون نافذ کرنے والے ناراض ہوکر ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ اب چیئرمین نیب نے وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کے خلاف تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔ ان پر پاکستان اسپورٹس بورڈ میں بد عنوانی اور قواعد و ضوبط کی خلاف ورزی کا الزام ہے نئے منصوبوں میں قومی خزانے کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ بورڈ میں اندھا دھند بھرتیاں کی گئیں۔ وافر فنڈز ملنے کے باوجود اسٹیڈیمزکی حالت ناگفتہ بہ ہے اور فنڈز میں خورد برد کی گئی ہے۔کھلاڑیوں کی تربیت کے نام پر کاغذی کیمپ لگائے گئے ان الزامات کی زد میں ڈی جی اسپورٹس بورڈ بھی آئے ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ سارے گھپلے اور بد عنوانیاں ایک دن، ہفتے یا مہینے کی بات تو نہیں ہوگی اس میں کئی برس لگے ہوں گے۔ اگر آغاز ہی میں گرفت کرلی جاتی تو قومی خزانے کی بچت ہوسکتی تھی۔ وجہ یہی ہے کہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے یا ہے تو نہ ہونے کے برابر۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اپنا حصہ بھی وصول کرتے ہیں اور دونوں کا کام چلتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں نیب نے گریڈ 20 کے ایک افسر احد خان چیمہ کو گرفتار کیا ہے۔ ان پر بھی کرپشن کا الزام ہے۔ فی الوقت وہ قائد اعظم تھرمل پاور کمپنی کے سی ای او کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ یہ کمپنی حکومت پنجاب کی ملکیت ہے اور احد چیمہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے پسندیدہ افسر ہیں ان پر زمینوں پر قبضے کا الزام ہے۔ وہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائرکٹر جنرل تھے۔ ان کی گرفتاری میاں شہباز شریف کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھی جارہی ہے چنانچہ پنجاب کابینہ میں اس پر احتجاج کیا جارہاہے اور ہڑتال کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ احد چیمہ بے قصور ہیں یا خطا کار، اس کا فیصلہ عدالتوں پر چھوڑدینا چاہیے تھا۔ نیب کے پاس ٹھوس ثبوت تو ہوں گے۔ اگر ایل ڈی اے کی زمینوں پر قبضے کا مسئلہ ہے تو وزیراعلیٰ خود اس کی وضاحت کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ کسی سے محاذ آرائی نہیں چاہتے لیکن کیا خود حکومتیں عدلیہ سے محاذ آرائی پر نہیں اتر آئیں؟ اگر قانون کی گرفت مضبوط ہو تو پاکستان میں بد عنوانی ختم نہ سہی، بہت کم ہوسکتی ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بد عنوانی، لوٹ مار اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کی اکثریت ان کی ہے جن کے پیٹ پہلے ہی بھرے ہوئے ہیں مگر ہوس بڑھتی جاتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ ہے کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف بہتری آئی ہے مگر اس کی رفتار سست ہے۔ کرپشن سے پاک ملکوں کی فہرست میں پاکستان میں پانچ درجے بہتری آئی ہے حکومتیں اور عدالتیں باہم محاذ آرائی ترک کرکے قانون کی بالادستی اور بروقت استعمال پر توجہ دیں تو مزید بہتری آسکتی ہے۔