جناح کے پاکستان کا احیاء ہونے لگا ؟

291

عدالت عظمیٰ نے سابق وزیر اعظم نوازشریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ کوئی بھی نااہل شخص پارٹی صدارت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا۔ بطور پارٹی صدر نوازشریف کے اٹھائے گئے تمام اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو فیصلہ سنایا۔
عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ملک اور قوم کے لیے خوش آئند ہے۔ اس لیے کہ سیاست دانوں کا کام ملکی قوانین پر عمل درآمد کے ساتھ اس پر عمل کرانا کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے نہ کہ اپنے مفادات کے کے لیے قوانین کو تبدیل کردیا جائے۔ انتخابی اصلاحات ایکٹ کے تحت نااہل وزیر اعظم کو پارٹی کا سربراہ بنایا جانا ایسا تھا جیسا کہ: ’’مجرم کو جیل سپرٹینڈنٹ بنادیا جائے‘‘۔
اس فیصلے کے فوری بعد نواز شریف نااہل ہوکر دراصل ملکی سیاست سے ’’مائنس‘‘ ہوچکے ہیں۔ ان کی حیثیت اب نعرے لگانے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ’’باتیں بگھارنے‘‘ والے اس عام کارکن سے زیادہ نہیں رہی جو کسی بھی انتخابات میں حصہ تک نہیں لے سکتا ہے۔
جھوٹے اور امانت میں خیانت کرنے والے شخص کو سیاست میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصول و تقاضا بھی ہے۔ نواز شریف کی سیاست سے نااہلی کے بعد اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ: ’’دور حاضر‘‘ میں الطاف حسین کے بعد نواز شریف اپنی جماعت کی رہنمائی سے ’’منفی‘‘ ہوچکے ہیں۔ کسی بھی غیرت مند سیاست دان کے لیے یہ عمل ’’شرم سے ڈوب مرنے‘‘ کے لیے کافی ہوتا ہے۔
نواز شریف اور الطاف حسین کے کڑے قانونی احتساب سے یقین ہونے لگا ہے کہ نئے نہیں بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کا احیاء ہورہا ہے۔ یہ بانی پاکستان کے خوابوں کی تعبیر ہی تو ہے کہ ملک کے قیام کو آج 70 سال 6 ماہ گزرنے کے بعد ملک کے موجودہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار یہ کہنے لگیں ہیں کہ: ’’آج ملک میں عدلیہ پہلے سے بہتر انداز میں کام کر رہی ہے اور ملک میں اچھا اور سستا انصاف فراہم کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے‘‘۔ وفاقی دارالحکومت میں جمعرات کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اس ملک کی بقا قانون کی حکمرانی میں ہے، جس پر سب کا اتفاق ہے، تاہم قانون کی عملداری کے لیے مضبوط عدالتی نظام کا ہونا بھی ضروری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’ہم نے معاشرے سے نا انصافی کے خاتمے کا آغاز کرنے کے لیے بنیاد رکھ دی ہے۔ ’’دیر آید درست آید‘‘ یہ امر قابل مبارک باد ہے کہ عدلیہ بھی یہ کہنے لگی ہے کہ یا کہنے پر مجبور ہوئی ہے کہ: ’’ملک کی بقا قانون کی حکمرانی میں ہے‘‘۔
یہ لاقانونیت ہی تو تھی کہ ملک سے باہر بیٹھ کر ایک لیڈر جو چاہے ملک کے خلاف بولتا رہا یہاں تک کہ اس نے پاکستان مردہ باد کے نعرے بھی باآسانی لگا دیے۔ یہ قانون پر عمل درآمد کرانے والوں ہی کی چھوٹ تو تھی کہ جنہوں نے اربوں بلکہ کھربوں روپے بیرون ملک سے منتقل کرنے والوں کو بروقت پکڑے کے بجائے ان کی پشت پناہی کی۔ یہ قانون کی نرمی ہی تو تھی کہ ملک کے ایوانوں میں منتخب ہونے والے دراصل دیگر ملکوں کی وفاداری کا حلف اٹھاکر وہاں کی بھی شہریت رکھتے تھے۔ کراچی سمیت پورے ملک میں سیاست کی آڑ میں بڑی بڑی مافیا چلانے والوں کو دراصل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بااثر افراد ہی کے خلاف قانونی آشیر باد تو رہی جس کی وجہ سے آج ملک اس مقام پر پہنچنے والا تھا جہاں سے واپسی مشکل تھی۔ اس لیے آج جس عنصر نے بھی قانون کی بالادستی قائم کرنے والوں کو اپنے تحفظ کا مکمل یقین دلایا ہے دراصل وہی ملک کے اصل محافظ، وفادار اور مخلص ہیں۔
یہ کہنا بہت آسان ہے کہ: ’’سب وقتی ڈرامے بازی ہے‘‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ ڈراما اور فلم بھی ہے تو اس سے میرے ملک کی خوشحالی کی امید ہو چلی ہے۔ آج ملک کے چاروں ستون اپنا اپنا بہترین کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ جمہوریت بھی چل رہی ہے اور قانون سے بالاتر جمہوریت کا چرخہ بھی ختم ہونے کو ہے۔ اب قوم اس خوش فہمی میں مبتلا ہوسکتی ہے کہ ملک سے خاندانی اور مورثی سیاست کا باب بھی جلد ختم ہوجائے گا۔ بس ضرورت عدلیہ کے جاری کردار کا تسلسل قائم رہنے کی ہے۔ عدلیہ یا سیاست کا کردار اگر شخصیات تک محدود رہا تو یہ بات بھی ملک کے لیے نقصان دہ ہوگی کیوں کہ ابھی بہت کچھ قانون کے مطابق چلنا ہے۔