بھارتی پالیسیوں کی کامیابی 

291

قومی سلامتی کے مشیر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا بھارت دفاعی معاہدوں سے خطے کا توازن بگڑ رہا ہے۔ بحرالکاہل میں بھارتی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور امریکا بحر ہند اور جنوبی چینی سمندر میں اپنی طاقت کئی گنا بڑھا چکا ہے۔ اسی کے ساتھ وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی خبردار کیا ہے کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کررہا ہے۔ بھارت چوں کہ پہلے دن ہی سے پاکستان دشمنی پر کمر باندھے ہوئے ہے اور اس نے کبھی بھی پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اس لیے وہ تو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ پہلے وہ سوویت یونین کی صفوں میں اور امریکا کا مخالف تھا۔ اب وہ چولا بدل کر امریکا کی بغل میں جا بیٹھا ہے۔ اسے بھارت کی پالیسیوں کی کامیابی کہنا چاہیے کہ ہر ملک اپنے مفادات کو مد نظر رکھتا ہے وہ اس کی راہ میں کسی قسم کا اصول و ضابطہ رکاوٹ نہیں بنتا۔ امریکا بھی اپنا مفاد پاکستان کے بجائے بھارت کا ساتھ دینے میں دیکھتا ہے چنانچہ ماضی کے مخالف آج دوست ہیں اور پاکستان امریکا کی محبت میں بہت کچھ گنوانے کے بعد اب راندۂ درگاہ ہے۔ امریکا کی طویل منصوبہ بندی چین کو گھیرے میں لینے کی ہے اور اس کے لیے اسے بھارت سے بڑھ کر کوئی کاندھا نہیں مل سکتا۔ اسی لیے امریکا نے بحر ہند اور بحر جنوبی چین میں اپنی طاقت میں کئی گنا اضافہ کرلیا ہے۔ امریکا ہی کی تائید اور مدد سے بھارت کو افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملا ہے تاکہ وہ وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرسکے۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے لیکن اسی پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ بھارت افغان سرزمین استعمال کرنے کے علاوہ برسوں سے کنٹرول لائن پر دہشت گردی اور فائرنگ میں ملوث ہے۔ آئے دن کنٹرول لائن پر فائر بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادی کو نشانہ بنارہا ہے اورعام شہری شہید ہورہے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق بھارت پاکستان پر الزام لگارہا ہے کہ وہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ بھارتی فوج کے سالار کچھ زیادہ ہی آپے سے باہر ہورہے ہیں اور پاکستان کو حملوں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ مودی کی انتہا پسند حکومت کے دور میں بھارت کی شرارتیں اور الزام تراشیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ عالمی برادری بھی منہ میں گھونگنیاں ڈالے بیٹھی ہے۔ اقوام متحدہ کے مبصرین بھی نام نہاد مبصر ہیں۔ کیا ان کو آزاد کشمیر میں بھارتی جارحیت کے شہدا نظر نہیں آتے؟ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی شہری آبادی پر فائرنگ نہیں کرسکتا کہ وہاں مسلمان آباد ہیں۔ پاکستان زیادہ سے زیادہ یہ کرتاہے کہ بھارتی سفیر کو طلب کرکے ایک احتجاجی مراسلہ تھما دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایسے مراسلوں کی کئی نقلیں تیار ہیں اور ہر دفعہ بھارتی سفیر کو بلاکر ایک نقل حوالے کردی جاتی ہے اور بس۔ سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفر الحق نے بھی یہ نشاندہی کی ہے کہ مودی دور میں مقبوضہ کشمیر میں مظالم انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کشمیر کے بارے میں متفقہ طور پر منظور کی جانے والی قرار داد کو دبائے بیٹھی ہے۔ اس میں اتنی ہمت نہیں یا امریکا کا اشارہ نہیں کہ قرار داد پر عمل کرایا جاسکے۔ کشمیر پر پاکستان اور بھارت میں کئی جنگیں ہوچکی ہیں لیکن اس وقت بھارت کے مظالم کا سارا زور مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ہے۔ کتنے ہی بچے اور نوجوان پیلٹ گنوں (چھرّے کی بندوقیں) سے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔ اس پر بھارت کا یہ دعویٰ کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس جمہوریت میں کشمیر ہی نہیں بھارتی مسلمان، سکھ اور دلت یا اچھوت بھی بری طرح پس رہے ہیں۔ لیکن یہ جمہوری بھارت امریکا کا دوست ہے۔ مگر افغانستان اور ایران تو مسلم ممالک ہیں۔ کیا وہ بھی مسلمانوں کے خلاف بھارت سرکار کے ساتھ ہیں؟