پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی تباہی

475

ٹیکسٹائل سیکٹر پاکستان کا اہم ترین صنعتی شعبہ ہے جس میں تمام صنعتی شعبوں میں کام کرنے والی افرادی قوت کا 40 فی صد روزگار حاصل کرتا ہے۔ یہ شعبہ ملک کو حاصل ہونے والی برآمدی آمدنی کا 62 فی صد حصہ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں ٹیکسٹائل کا حصہ 8 فی صد ہے اور ایشیا کا آٹھواں بڑا برآمدی سیکٹر ہے۔ اس وقت ملک میں جس پارٹی کی حکومت ہے اس کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ یہ بزنس فرینڈلی ہے، اس میں شامل زیادہ تر افراد کاروباری ہیں، وہ کاروبار کی باریکیوں سے واقف ہیں۔ فیکٹریاں اور کارخانے چلانا جانتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی موجودگی میں ٹیکسٹائل کا شعبہ زوال کا شکار ہو اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے عہدیداران حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کریں اور یہ انکشاف کریں کہ 100 ٹیکسٹائل ملز بند ہوچکی ہیں تو یہ معاملہ حیرانی اور صدمے سے کم نہیں۔
ٹیکسٹائل سیکٹر کی بدحالی، ابتری اور زوال پزیری پر اس شعبے سے متعلقہ عہدیداران و برآمدکنندگان اپنی مشکلات کا دکھڑا ہر میٹنگ، ہر اجلاس اور ہر بات جہت میں وزیر تجارت، وزیر خزانہ، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم نئے اور پرانے سب کے سامنے بیان کرتے رہے ہیں۔ ماہرین معیشت، کاروباری تجزیہ نگار بھی اس موضوع پر اظہار خیال کرتے رہے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جیسا اوپر بیان کیا گیا کہ پاکستان کا اہم ترین صنعتی شعبہ ہے جو سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے اور برآمدات کے ذریعے سب سے زیادہ زرمبادلہ کما کر دیتا ہے مگر حکومت نے اپنے پورے دور میں اس شعبے کی بحالی اور ترقی کے لیے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
کپاس کی پیداوار میں پاکستان دُنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے لیکن ٹیکسٹائل کی برآمدات میں پاکستان آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہا ہے۔ گزشتہ 6 سال میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں انڈیا میں 30 فی صد، بنگلا دیش میں 60 فی صد اور ویت نام میں 107 فی صد اضافہ ہوا، جب کہ پاکستان میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداوار میں 30 فی صد کمی ہوئی اور دنیا میں پاکستان کا حصہ 2.2 فی صد سے کم ہو کر 1.7 فی صد رہ گیا۔
اس صورت حال کی وجوہات وہی ہیں جو گزشتہ کئی سال سے ان صفحات پر بیان کی جاتی رہی ہیں اور مختلف حلقوں کی جانب سے ارباب اقتدار کے سامنے لائی گئی ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ پیداواری لاگت کا ہے جس میں اہم عنصر بجلی اور گیس کی قیمتیں ہیں پاکستان میں یہ دونوں خطے کے دوسرے ممالک مثلاً بنگلا دیش، انڈیا، سری لنکا، چین، ویت نام، انڈونیشیا سے زیادہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی مصنوعات ریڈی میڈ گارمنٹ، ہوزری کا سامان، تولیہ اور بیڈ شیٹس، سوتی دھاگا، گرے فیبرکس اور نٹ ویر تمام بین الاقوامی مارکیٹ میں آسانی سے قبول نہیں کی جاتیں۔ حال ہی میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا ہے کہ گیس کے نرخ پنجاب میں سندھ سے زیادہ ہیں۔ پنجاب میں LNG کی سپلائی ہے جب کہ سندھ میں SSGC کی سپلائی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ گیس کے نرخ سندھ اور پنجاب کی صنعتوں کے لیے یکساں ہونے چاہئیں۔ اسی طرح گیس کے انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے مزید ٹیکس لگا دیا گیا، مطلب یہ کہ نیا اسٹرکچر جب بنے گا تب بنے گا مگر ٹیکس اس پر آج ہی عائد ہوگیا ہے۔ ایف بی آر کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی وصولی ہو، چاہے صنعت، تجارت، زراعت اور صارف پر کتنا ہی بُرا اثر پڑے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایف بی آر کی تو واہ واہ ہورہی ہے کہ وہ ہدف کے مطابق ٹیکس جمع کررہا ہے جب کہ یہ زیادہ تر بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes) ہیں جن کا معیشت کے تمام شعبوں پر انتہائی منفی اثر پڑ رہا ہے۔
دوسرا مسئلہ 200 ارب روپے کے ریفنڈ کی ادائیگی کا ہے، اتنی بڑی رقم جو برآمدکنندگان کی ہے جو ایف بی آر کو ادا کرنی ہے حکومت نے ہر سطح پر یہ یقین دلایا کہ ریفنڈ جلد از جلد واپس کردیے جائیں گے اور اب 5 سال ہونے کو آئے مگر برآمد کنندگان کو یہ رقم واپس نہیں ہوئی۔ جب کہ ایک تاجر کے پاس پیسہ ہی نہیں ہوگا تو وہ کاروبار کیسے کرے گا۔ تیسرا مسئلہ بجلی کی قلت کا تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اب بجلی کی فراہمی بہتر ہوگئی ہے مگر اس کے نرخ اتنے زیادہ ہیں کہ اس کا استعمال ڈراؤنا خواب ہے۔ حکومت نے برآمدکنندگان کی آسانی کے لیے پچھلے سال 180 ارب روپے کا ایک ایکسپورٹ پیکیج کا اعلان کیا تھا جو گارمنٹس، پروس فیبرکس، کاٹن یارن اور گرے فیبرکس کے سلسلے میں امدادی پیکیج تھا لیکن اس میں شرائط یہ تھیں کہ پہلے آپ دی گئی مصنوعات برآمد کریں پھر اس کی دستاویزات فراہم کریں، اس پر ڈیوٹی ڈرابیکس ادا کیے جائیں گے جو حکومت پہلے ہی برآمدکنندگان کے 200 ارب دبائے بیٹھی ہو اس پر کون یقین کرے گا۔ نتیجتاً اس پیکیجز کے باوجود برآمد میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ یہ باتیں ایک عرصے سے لکھی جارہی ہیں اب جب کہ حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کا وقت آگیا ہے، بلند بانگ دعوے، سہانے وعدے اور بڑی بڑی باتیں سننے کو ملیں گی، نئی حکومت کے زمام کار سنبھالنے کے بعد اندازہ ہوگا کہ اس کے کیا عزائم ہیں۔