2018انتخابات کا سال ہے تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے حساب سے اس کی تیاریوں میں مصروف ہیں مسلم لیگ ن نواز شریف خاندان کے خلاف عدالتی فیصلوں کو اپنی مظلومیت بڑھانے کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کئی برسوں سے ن لیگ کی کرپشن کے خلاف مہم چلارہی ہے یہی اس کی انتخابی مہم بھی ہے جب کہ تیسری بڑی پارٹی پی پی پی بہت خاموشی، سنجیدگی اور ڈپلومیسی سے کام لے رہی ہے ایک طرف تو ان کی اعلیٰ قیادت جوڑ توڑ میں مصروف ہے بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی میں بھی پی پی پی کی قیادت کا نام لیا جارہا ہے اور پنجاب میں بھی بڑے پیمانے پر سرپرائز دینے کی تیاری ہو رہی ہے با اثر طبقات اور افراد کا وزن کیا جارہا ہے اور حکمت عملی سے اور خاموشی سے ’’معاملات‘‘ طے کیے جارہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی پورے ملک میں ان کی رکن سازی کی مہم چل رہی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، کراچی شہر میں بھی ہر محلے اور چوکوں چوراہوں پر پی پی پی کی رکن سازی کے کیمپ آپ کو نظر آرہے ہوں گے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ بالخصوص نوجوان بڑی تعداد میں پی پی پی میں شریک ہو رہے ہیں۔ ان نئے شرکاء کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں عوام کو کچھ دے (deliver) نہیں سکتیں اور ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اور چوں کہ پی پی پی صوبہ کی برسراقتدار جماعت ہے، اور آئندہ بھی سندھ سے اس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں لہٰذا یہ جماعت ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت کچھ دے سکتی ہے۔ یہ وہ سوچ ہے جس میں پڑھے لکھے وہ نوجوان جو کچھ اسلامی سوچ بھی رکھتے ہیں اس میں جارہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہم عام لوگوں کے مسائل حل کرکے ہی ان کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں، جماعت اسلامی ایک گٹر کا ڈھکن تک تو لگوا نہیں سکتی وہ اور مسائل کیا حل کرے گی۔
حالاں کہ اگر تھوڑی سی عقل استعمال کی جائے تو ہمارے نوجوانوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ آج کے دور میں جماعت اسلامی نے جتنی عوامی مسائل میں دلچسپی لی ہے اور باقاعدہ مہمات چلائی ہیں یہ اس سے پہلے اس انداز میں کبھی نہیں ہوا اور پھر یہ مسائل بھی ہماری دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کی ہوس زر کے نتیجے میں پیدا ہوئے اور آج کراچی کے عوام ان مسائل کے تلے کراہ رہے ہیں مثلاً کے الیکٹرک کے مسئلے کو لیجیے کے اس نے اوور بلنگ کے نام سے کراچی کے عوام کا خون چوس لیا ہے اور پھر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ یہی پی پی پی اور اس کی اعلیٰ قیادت تھی کہ جس کا، کے الیکٹرک سے گٹھ جوڑ زبان زد عام ہوا اور بعض حوالوں سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت اس میں باقاعدہ حصے دار ہے یہی وجہ ہے کہ جب جماعت اسلامی نے کے الیکٹرک کے ظلم کے خلاف دھرنے دیے اور مہم چلائی تو یہی پی پی پی تھی جس نے کے الیکٹرک کے حق میں مظاہرے کیے۔ دوسری سیاسی جماعت جو دراصل لسانی جماعت ہے جو کراچی کے مینڈٹ کی دعویدار ہے اس جماعت کی بھی اعلیٰ قیادتوں کے قریبی عزیزوں کو لاکھوں روپے کے ماہانہ پیکیج پر ملازمتیں دی گئیں جب کہ ان کے عام کارکن جو بیروزگار تھے سیکٹر اور یونٹس کے دفاتر کی خاک چاٹتے رہے۔ اس جماعت نے بھی عوام کا مسئلہ حل کرنے کے بجائے کے الیکٹرک کے ظلم پر اس کا ساتھ دیا وہ جب کسی کی بجلی کاٹنے آتے تو سیکٹر اور یونٹ کا کوئی نامی گرامی بندہ ساتھ آتا جس کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا تھا۔ یونٹ اور سیکٹر کے دفاتر میں جب لوگ زائد بلنگ کی شکایت لے کر جاتے تو لوگوں کے بل جمع کرکے کے الیکٹرک میں اپنے بنائے ہوئے نیٹ ورک کے ذریعے اس میں کچھ کمی کرادی جاتی یا قسطیں کروادی جاتیں لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ بھاری بل آجاتا اب کون بار بار دفاتر کے چکر لگائے۔ تیسری کراچی کی جماعت تحریک انصاف ہے جس کو 2013 کے انتخابات میں قابل ذکر ووٹ ملے تھے اس کا حال بھی سن لیجیے کہ جب گورنر ہاؤس کے سامنے جماعت اسلامی کا دھرنا ہو رہا تھا تو تحریک انصاف کے جسٹس وجیہہ نے انکشاف کیا کہ جب میں نے یہاں کے تحریک انصاف کے رہنماؤں سے کہا کہ ہمیں کے الیکٹرک کے ظلم کے خلاف جماعت اسلامی کا ساتھ دینا چاہیے اور ان کے دھرنے میں جا کر خطاب کرنا چاہیے تو مجھے جواب دیا گیا کہ ہمیں اس کمپنی سے (باہر کے کسی ملک کا نام لے کر کہا کہ) قابل ذکر مالی معاونت ملتی ہے اس لیے ہم اس کے خلاف کسی مہم میں حصہ نہیں لیں گے اب رہ گئی ن لیگ تو اس جماعت کا کراچی میں کوئی اسٹیک نہیں سوائے چند بستیوں اس لیے اس جماعت نے کے الیکٹرک کی من مانیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی حالاں کہ وفاق میں اس کی حکومت تھی جب کہ کراچی کے شہریوں یہ مصیبت اسی کی لائی ہوئی ہے۔
شناختی کارڈکے حصول کے لیے نادرا میں جو پریشانیاں لوگوں کو اٹھانا پڑتی ہے اس سے تو سب ہی واقف ہیں۔ حال ہی جماعت اسلامی کراچی نے ایک بھر پور مہم چلائی اور نادرہ ہیڈ آفس کے سامنے بہت بھرپور دھرنا دیا اور نادرا کی انتظامیہ نے مذاکرات کر کے عوامی مفاد کے کئی مطالبات کو تسلیم کیا جن لوگوں کے شناختی کارڈ گم ہوجاتے یا مدت ختم ہوجاتی تو نئے کارڈ کے لیے ان سے باپ دادا کے کارڈ یا پیدائشی سرٹیفکیٹ طلب کیے جاتے دو گھنٹے دھوپ میں کھڑے ہو کر جب بندہ کھڑکی کے پاس جاتا تو کسی بھی معمولی کمی پر اسے واپس کردیا جاتا، اب اس میں یہ آسانی ہو گئی ہے کہ اس طرح کے کارڈ فور ی طور پر بنادیے جائیں گے۔
آج کراچی میں نوجوانوں کو داخلے اور ملازمتوں کے سلسلے میں جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی سب سے پہلی اور بڑی ذمے دار تو خود پی پی پی ہے جو آج کراچی کے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں اور کاروبار کے لیے بلاسود قرضوں کے لارے لپے دے رہی ہے۔ دوسری پارٹی ایم کیو ایم ہے جس نے شہری نوجوانوں کی اس احساس محرومی کواپنے سیاسی عروج اور غلبے کا ذریعہ بنایا۔ 16دسمبر 1971کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جب بھٹو صاحب نے بچے کھچے پاکستان کا اقتدار سنبھالا تو وہ پاکستان کے عام لوگوں کے نزدیک ایک متنازع شخصیت بن چکے تھے کہ عام پاکستانیوں کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب نے اپنے اقتدار کی خاطر آدھا ملک نہ صرف گنوا دیا بلک کئی ہزار پاکستانی فوجیوں کو ذلت آمیز انداز میں ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہزاروں فوجیوں سمیت ترانوے ہزار افراد بھارت کی قید میں چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے اپنے اوپر سے دباؤ کم کرنے کیے سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہ اور اسباب معلوم کرنے کے لیے حمود الرحمن کمیشن تشکیل دیا۔ اس کے بعد تا عمر پاکستان میں حکمرانی کرنے لیے کچھ اہم اقدامات اٹھائے ویسے تو وہ پنجاب سے جیتے تھے لیکن انہوں نے سندھ کو اپنا بیس کیمپ بنانے کی منصوبہ بندی کی۔ اس کے لیے انہوں نے 1972 میں سندھ اسمبلی میں اپنی پارٹی کی طرف سے ایک قرارداد منظور کروائی کہ سندھی زبان صوبے کی سرکاری زبان ہوگی اس پر پورے صوبے میں ہنگامے پھوٹ پڑے کراچی میں شہید چوک وجود میں آیا سندھ کے تما م چھوٹے بڑے شہروں میں سندھی مہاجر فسادات میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں بڑی تعداد میں مہاجرین چھوٹے شہروں اور بالخصوص دیہی علاقوں سے ہجرت کر کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں شفٹ ہو گئے۔ یہ سب کام ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا تھا کہ عام پاکستانیوں پر سقوط ڈھاکا کے حوالے جو سوالات اٹھ رہے ہیں ان سے توجہ ہٹائی جائے۔ ان ہنگاموں کو ختم کرنے اور امن و امان کے قیام کے لیے بھٹو صاحب نے مذاکرات کو ڈول ڈالا اردو بولنے والوں کی طرف مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی تھے جب کہ دوسری طرف سندھی اسپیکنگ کی نمائندگی خود بھٹو صاحب کررہے تھے حالاں کہ اس وقت بھٹو صاحب پورے ملک کے سربراہ تھے وہ اردو، سندھی، پنجابی، بلوچی، اور پشتو تمام زبانیں بولنے والوں سربراہ تھے انہیں یہ کام کسی اور کہ ذمے لگانا چاہیے تھا۔
ان مذاکرات میں جو معاملات طے ہوئے وہ بڑے دور رس نتائج کے حامل تھے یعنی صوبے کا وزیر اعلیٰ سندھی ہوگا تو گورنر اردو اسپیکنگ ہوگا اور اگر گورنر سندھی ہوگا تو وزیراعلیٰ مہاجر ہوگا اسی طرح کسی علاقے کا ڈپٹی کمشنر سندھی ہوگا تو پولیس کا ایس ایس پی اردو بولنے والا ہوگا ایک اہم بات اس میں جو طے ہوئی وہ سندھ میں کوٹا سسٹم کا نفاذ تھا کہ سندھ کے شہری علاقوں کو 40فے صد اور دیہی علاقوں کو 60فے صد تعلیمی اداروں میں داخلوں اور ملازمتوں میں دیا جائے گا اور وفاقی اداروں میں شہری نوجوانوں کا کوٹا ختم کردیا گیا یہ سب دیہی علاقوں کو دے دیا گیا جو لوگ یہ معاملات طے کررہے تھے انہیں شاید اندازہ نہیں تھا ہمارا یہ فیصلہ آگے جاکر کتنے اندوہناک المیوں کو جنم دے گا چناں چہ اس زمانے میں وفاقی محکموں کی طرف سے اخبارات میں ملازمتوں کے جو اشتہار شائع ہوتے تھے ان میں بہت واضح طور پر لکھا ہوتا تھا کراچی حیدرآباد اور سکھر کے ڈومیسائل رکھنے والے درخواست نہ دیں پھر بھٹو صاحب نے اس کو 1973کے دستور میں شامل کردیا اور اس کی دس سال مدت رکھا کہ دس سال کے بعد یہ قانون ازخود ختم ہو جائے گا۔
شہری علاقوں کے نوجوانوں میں اس محرومی کا لا وا پکتارہا اور اس میں مزید شدت اس وقت آگئی جب جنرل ضیاء الحق نے 1983 میں سندھیوں کو خوش کرنے کے لیے اس کو ختم کرنے کے بجائے مزید دس سال کے لیے بڑھا دیا۔ اس طرح بھٹو صاحب نے صوبہ سندھ میں اپنی سیاسی بیس کو ہمیشہ کے لیے مضبوط کردیا آج آپ کو کراچی کے ہر محکمے میں اگر سندھی بولنے والوں کی جو اکثریت نظر آتی ہے وہ اسی قانون کے نتیجے میں ہے ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے کہ سندھی اسپیکنگ کیوں بھرے جارہے ہیں بلکہ اصل اعتراض یہ ہے کہ اس کالے قانون کے ذریعے میرٹ کا قتل عام کیا گیا پھر لاوا پکتے پکتے 1986ایم کیو ایم کی شکل میں پھوٹا۔ آج کراچی کے نوجوانوں کی احساس محرومی کی ذمے دار ایم کیو ایم بھی ہے اس پر آئندہ پھر بات ہو گی۔ پی پی پی میں جانے والوں کو اس تاریخی حقیقت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ آج کراچی کے نوجوانوں کے معاشی قتل عام کی اصل ذمے دار پی پی پی ہے۔