محض قرارداد سے شام میں امن نہیں ہوگا

602

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں 30روزہ جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی۔ اب سب سے زیادہ متاثرہ علاقے مشرقی غوطہ میں 48 گھنٹوں کے بعد امدادی سامان کی ترسیل اور متاثرین کی منتقلی کا کام شروع کردیا جائے گا۔ جنگ بندی سے پہلے بھی شامی فضائیہ کی بمباری مسلسل ساتویں روز بھی جاری رہی، جس سے 21 افراد جاں بحق ہوئے۔ مجموعی تعداد5 سو تک پہنچ گئی۔ لیکن کیا شام کا مسئلہ صرف یہی ہے؟ امریکی مندوب نکی ہیلی نے بڑے معصومانہ انداز میں کہاہے کہ ہم بڑی دیر بعد اس بحران کا جواب دے رہے ہیں۔ یہی بات ان سے بھی پوچھی جانی چاہیے کہ بحران پیدا کس نے کیا اور ابھی یہ بھی یقینی نہیں ہے کہ شامی حکومت سلامتی کونسل کی قرارداد پر کس حد تک عمل کرے گی۔ شام کے بارے میں سلامتی کونسل نے انسانی ہمدردی کے طور پر اس انسانی المیے کو روکنے کے لیے قرارداد منظور نہیں کی ہے بلکہ ایک وقفے پر سب آمادہ ہوئے ہیں یہ فیصلہ کرنے کے لیے ان لوگوں سے کوئی مشورہ نہیں ہوا ہے جن پر بمباری کی جارہی ہے۔ سلامتی کونسل میں بیٹھے ممالک یہ بتائیں کہ شام میں روس کا کیا کام، امریکا کا کیا کام، یہ ممالک کیوں ایک ملک کے اندرونی معاملات میں کودے ہیں۔ اس مختصر پس منظر کو بار بار یاد دلانے کی ضرورت ہے۔ شام میں بھی دیگر عرب ممالک کی طرح ایک حکومت مخالف لہر اٹھی اور قریب تھا کہ شامی مزاحمت کار قوتیں بشارالاسد کے اقتدار کا خاتمہ کردیتیں۔ بشار کے مغربی سرپرست اسے بچانے آگئے اس نے طویل وقت تو روسی بحری بیڑے میں قیام کیا اور وہیں سے مزاحمت کاروں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر حملوں کے احکامات دیتا رہا۔ اس کی سرپرستی روس، امریکا، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب سب ہی کررہے تھے۔ ان کے نزدیک بشار کے جرائم کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اس کے مخالف گروہ کا خوف ان پر زیادہ تھا کہ کہیں وہ اقتدار نہ حاصل کرلے۔ اسی لیے امریکا نے خود ہی نعرہ دیا کہ بشارالاسد کو اقتدار سے محروم کردیا جائے لیکن حقیقتاً امریکا بھی یہ نہیں چاہتا تھا بلکہ امریکا، سعودی عرب، روس اور دیگر ممالک بھی اس میں کود پڑے ہیں۔ روس بشارالاسد کا ساتھ دے رہا ہے اور ایران بھی اس کی حکومت کی مدد کررہاہے۔ مکمل فوجی مدد تو روس نے 2015 میں شروع کردی تھی امریکا نے عراق سے کچھ گروپوں کو شام بھجوادیا اور انہیں داعش کا نام دے دیا۔ پھر ان کو بشار کے خلاف کھڑا کردیا پھر ان ہی کو مارنے کے لیے فضائی حملے کرنے پہنچ گیا۔ یہاں صرف ایران، سعودی عرب، امریکا اور روس کے مفادات نہیں بلکہ اسرائیل، حزب اﷲ پر حملوں کے بہانے کارروائیاں کرتا ہے اس جنگ میں عجیب کھچڑی بنی ہوئی ہے۔ جو ممالک عام طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں یہاں مسلمان شامیوں پر بمباری کرنے میں حلیف بنے ہوئے ہیں۔ جرمنی بھی فضائی حملوں میں مددگار ہے۔ فرانس بھی امریکی اتحاد میں شامل ہے اس نے بھی امداد کے نام پر کام شروع کیا اب بمباری کرنے والوں کا معاون ہے۔ یہ سب ممالک ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن شام میں بم گرانے پر سب متفق ہیں۔ خود ہی مختلف علاقوں کو جنگجوؤں کا علاقہ قرار دے دیا ہے کسی کو داعش اور کسی کو القاعدہ کہہ دیا اور پھر بمباری شروع۔ ان ممالک کے ڈرامے سلامتی کونسل میں بھی جاری ہیں۔ 30 روزہ جنگ بندی کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس موقع پر بھی یہ کہا گیا کہ روس کی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے۔ شام میں ترکی بھی مصروف ہے۔ اس حوالے سے مختلف آرا ہیں لیکن جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں ملوث ہوتا ہے تو روپیہ، پیسہ، اسلحہ، افرادی قوت سب کچھ لگتا ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ امریکا، روس، جرمنی، فرانس، سعودی عرب، ایران، ترکی اور درجنوں ممالک شام کی تباہی پر متفق ہیں۔ مگر ان کا مسئلہ کیا ہے یہاں کیا لینے آئے ہیں؟۔ یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ جب تک صرف بشار کے حامی اور مخالف لڑرہے تھے تو یہ ایک ملک کے دو گروہوں کا مسئلہ تھا۔ اسے بھی ختم کرنے میں مدد دی جانی چاہیے تھی نہ کہ اس جلتی پر مزید تیل چھڑکاجاتا۔ شام میں جوں ہی روس نے بھرپور تعاون شروع کیا شامی فضائیہ اور فورسز نے اپنا مخالف تصور کرکے پورے پورے علاقوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ یہاں سے انسانی المیے نے اس طرح جنم لیا کہ لوگ ہجرت کرنے لگے۔ انہیں انسانی اسمگلروں نے اچک لیا اور پھر بین الاقوامی میڈیا نے انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں دوسرے ملکوں میں گھسنے کی کوشش کرنے والوں کی تصاویر کے ذریعے آگ لگائی اس طرح دنیا یہ اندازہ لگانے کے بجائے کہ وہاں کیا ہورہاہے بس مہاجرین کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں لگ گئی۔ تارکین وطن یا مہاجرین کا معاملہ اپنی جگہ لیکن اس کے ذریعے سارا وبال مفروضہ داعش پر ڈال کر جنگ میں ساری مغربی دنیا کے کودنے کا جواز پیدا کردیاگیا۔ اب ساری دنیا وہاں داعش کو مار رہی ہے جو وہاں ہے یا نہیں، اس کا کسی کو پتا نہیں۔ مغربی اور امریکی میڈیا جو بتاتا ہے دنیا اس پر یقین کررہی ہے۔ اب جب کہ سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کرلی ہے تو اس کا مقصد محض 30 یوم گزارنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ شام میں مصروف تمام غیر ملکی قوتوں کا انخلا اس مسئلے کا حل ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں غیر ملکی قوتیں مصروف عمل ہیں وہاں صرف آگ خون، بم، افرا تفری اور تباہی ہے لہٰذا یہ نام نہاد جنگ بندی بھی بیکار ہی ثابت ہوگی بلکہ قرارداد منظور ہونے کے باوجودپیر کے دن روسی سرکردگی میں بمباری کرکے مزید 13 افراد کو شہید کردیاگیا۔ دنیا میں تباہی کا سبب یہی تو ہے کہ عالمی اداروں کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا گیا یا پھر ان میں چور دروازے رکھے جاتے ہیں۔ حالیہ قرارداد میں بھی یہی کیا گیا اب داعش اور القاعدہ کی شناخت چھوڑنے والی ہیئت تحریر الشام یا ان جیسی تنظیموں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے کے باوجود جنگ جاری رہے گی۔ ہر بمباریہی بتائے گا کہ ہم نے تو داعش اور ہیئت تحریر کے لوگوں پر حملہ کیا ہے یہ سب ملکر شام میں نہ صرف مسلمانوں کو ماررہے ہیں بلکہ شام میں موجود عمارتوں، اسپتالوں، کارخانوں اور اسکولوں کو بھی تباہ کررہے ہیں۔ شامی مسئلے کا حل یہی ہے کہ تمام غیر ملکی قوتیں شام سے فوری طور پر نکل جائیں۔ شامی عوام کو اپنا مسئلہ حل کرنے دیا جائے۔ یہ جو عالمی ٹھیکے دار ہیں یہ امن قائم کرنے نہیں جنگ کو ہوا دینے آئے ہیں تاکہ ان کے ساتھیوں کا اسلحہ فروخت کیا جائے، نت نئے اسلحے کی جانچ بھی کرلی جاتی ہے اور اس کے لیے اپنے ممالک کو تختۂ مشق بنانے کے بجائے اسلامی ممالک کو نشانہ بنایاجاتا ہے۔ ایک اور بات بڑی قابل توجہ ہے۔ کچھ نادان دوست بڑی درد مندی کے اظہار کے ساتھ پاکستانی فوج کو شام بھیجنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ پاکستانی فوج وہاں جاکر کیا کرے گی۔ روس سے لڑے گی؟ امریکی فوج سے لڑے گی، یا داعش سے۔ یا پھر بشار کی فوج سے۔ جس سے بھی لڑے گی وہ کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کا حلیف یا دوست بھی ہے۔ کیا پاکستانی فوج شام میں ایرانیوں کے خلاف لڑے گی۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ ایک اور ملک کی فوج شام میں داخل ہوجائے گی۔ اس کے بعد بھارت کو براہ راست وہاں آنے سے کون روکے گا۔ ایسی تجاویز محض انتشار اور ابہام پھیلانے والی ہیں۔