چین عالمی نظام میں ایک نئے کھلاڑی کی حیثیت سے سامنے تو آہی رہا ہے مگر علاقائی سیاست میں بھی چین کا نام کہیں مثبت اور کہیں منفی حوالوں سنائی دیتا ہے۔ افغانستان میں پاکستان، افغانستان اور طالبان کے درمیان امن کی ایک ہمہ جہتی اور مضبوط کوشش کا تعلق چین سے ہے۔ گوکہ ابھی تک یہ کوشش بھی دوسری تمام کاوشوں کی طرح کامیابی کی سمت رواں نہیں ہوئی مگر دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ یہ عمل بہت سست روی کے ساتھ جاری ہے۔ چوں کہ بھارت اور امریکا اسٹرٹیجک اتحادی بن چکے ہیں اور ان دونوں کے تعاون کی کلید چین کا راستہ روکنے کا تصور ہے۔ اس لیے یہ دونوں ممالک چین کی سفارتی اور اقتصادی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ہر داؤ استعمال کررہے ہیں۔
پاکستان کو چین سے کاٹ کر امریکا اور بھارت کے بلاک کا حصہ بنانے کی کوششیں اب قریب قریب دم توڑ چکی ہیں۔ پاکستان اپنے لیے بہت سے آپشن کھلے رکھنے کے باجود چین کے ساتھ دوستی اور تعاون کو شکوک وشبہات سے بالاتر بنا چکا ہے۔ بھارت اس تعلق سے خوف محسوس کرتا تو رہا مگر وہ تنقید اور الزام کے لیے پاکستان ہی کو ریت کی بوری بنائے ہوئے رہا مگر رفتہ رفتہ پاکستان اور چین دونوں بھارت کی الزام تراشی کا نشانہ بننے لگے ہیں۔ اس حوالے سے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کا ایک متنازع بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جنرل روات نے دہلی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کا پڑوسی پراکسی گیم کھیل رہا ہے اور شمالی ہمسایہ اس کی مدد کر رہا ہے گویا کہ جنرل راوت یہ کہہ رہے تھے پاکستان نے چین کی مدد سے بھارت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ جنرل راوت نے اس کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بنگلا دیش سے مسلمان بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں بالخصوص آسام میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس کا مقصد ان علاقوں میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ پاکستان کی سرگرمی میں چین اس کی مدد کر رہا ہے۔ جنرل راوت کا یہ بھی کہنا تھا کہ آسام میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسام میں مسلمانوں کی جماعت آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بھارتیا جنتا پارٹی سے زیادہ ترقی کر رہی ہے۔ آسام میں کے پانچ اضلاع میں پہلے ہی مسلمانوں کی اکثریت تھی اب نو اضلاع میں اکثریت ہے۔ اب آبادی کے تناسب کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ بپن راوت کے اس بیان پر یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے سربراہ مولانا بدرالدین اجمل نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب آرمی چیف نے سیاسی بیانات بھی دینا شروع کردیے ہیں۔ بھارتی فوج کے سربراہ نے بہت کھل کر شمالی مشرقی ریاستوں کے حالات میں پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی موردِ الزام ٹھیرایا۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلا دیش میں اس وقت پاکستان کا سیاسی اثر رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وزیر اعظم حسینہ واجد پاکستان سے تمام پرانے قرض چکانے اور حساب برابر کرنے پر تُلی بیٹھی ہیں۔ ان کی سربراہی میں بنگلا دیش اور حامد کرزئی کے افغانستان میں رتی بھر فرق نہیں۔ دونوں ملکوں میں حکمران پاکستان مخالف جذبات کی آگ کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان کا بھارت مخالف کسی سرگرمی کے لیے بنگلا دیش کی سرزمین کو استعمال کرنا کارِدارد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں بھارتی آرمی چیف چین ہی کو موردِالزام ٹھیرانا چاہتے تھے اور اس بیان میں مزید چاشنی پیدا کرنے کے لیے انہوں نے پاکستان کے نام کا تڑکا لگا دیا۔ آرمی چیف سے بھی زیادہ چشم کشا بیان مقبوضہ کشمیر کے وزیر حکومت کا ہے۔ نعیم اختر اندرابی مقبوضہ کشمیر کے سینئر وزیر اور پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کے ترجمان اعلیٰ ہیں۔ نعیم اختر نے بھارت کے ایک اخبار کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ چین براہ راست کشمیر کے معاملات میں دخیل ہوچکا ہے۔ اب چین اور پاکستان الگ نہیں بلکہ بھارت کے لیے ایک محاذ بن چکے ہیں۔ نعیم اختر کا کہنا تھا کہ کشمیر اب صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع نہیں بلکہ اس میں چین بھی ایک اہم عنصر کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ اب کشمیر میں واقعتا ایک بڑا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کشمیر میں اب پاکستان اکیلا نہیں بلکہ چین بھی اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارت ہر طرف سے گھرا ہوا ہے۔ بھوٹان سے ارونا چل پردیش تک لداخ سے وادی کشمیر تک، جموں، سری لنکا اور مالدیپ تک سب ایک محاذ ہے۔ پاکستان اور چین اس محاذ پر ایک ہیں۔ نعیم اختر کا کہنا تھا کہ چین نے جیش محمد نامی تنظیم کو گو د لے لیا ہے۔ چین جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے بارے میں نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ سب کچھ کہنے کے بعد نعیم اختر نے بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور کشمیر میں اعتماد سازی کے لیے اقدامات کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان کو اس حد تک چین کی طرف نہ دھکیلے کہ اس کی بازیافت ممکن نہ رہے۔
جنرل بپن راوت آسام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بی جے پی کے کھلے ہمدرد نظر آرہے ہیں جب کہ نعیم اختر ان کے ساتھ شریک حکومت ہیں اور ان دونوں کی باتوں میں چین کا خوف ایک اہم قدر مشترک دکھائی دیتی ہے۔ اس سے ایک ہی تصویر بنتی نظر آرہی ہے کہ چین اور پاکستان مل کر بھارت کے گرد شکنجہ کس رہے ہیں۔ اس کے برعکس چین اور پاکستان دونوں اس احساس میں مبتلا ہیں کہ بھارت امریکا کی مدد سے ان کا گھیرا تنگ کرنے میں مصروف ہے۔ افغانستان میں بیٹھی ہوئی امریکی افواج اس کام میں بھارت کی معاونت کر رہی ہیں۔