ڈاکو راج

607

عام آدمی ہر وقت ایک دھڑکے میں مبتلا رہتا ہے۔ ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ جانے کا دھڑکا۔ گھر سے باہر ہوتو یہ فکر دامن گیرکہ نہ جانے کب اور کہاں کوئی موٹر سائیکل یا کار رکے، اس میں سے ڈاکو، لٹیرے برآمد ہوں، اسلحہ بدست، اور سب کچھ لوٹ کر فرار ہوجائیں۔ گھر کے اندر ہوں تو یہ فکر کہ چور ڈاکو نہ آجائیں اور مال واسباب کے ساتھ عزت بھی خطرے میں پڑ جائے۔ بار بار گھر کے مین دروازے کے لاک ہونے کے بارے میں فکر۔ بچوں سے بار بار کہہ رہے ہیں ’’بیٹا دیکھنا باہر کا دروازہ کھلا ہوا تو نہیں‘‘۔ بچے یقین دلارہے ہیں کہ دروازہ بند کردیا ہے، اپنے ہاتھوں سے بند کیا ہے لیکن پھر بھی خود اٹھ کر تصدیق کررہے ہیں۔ گھر کا کوئی فرد اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے جائے تو جب تک خیریت سے آنہ جائے فکر لگی رہتی ہے۔ ایسے مواقع پر گھر کی خواتین ساتھ جانے پر اصرار کرتی ہیں تاکہ متعلقہ فرد لوٹ مار کرنے والوں سے محفوظ رہے۔ یہی صورت حال بینک سے بڑی رقم نکلوانے کے مواقع پر بھی درپیش رہتی ہے۔
یادش بخیر! کسی زمانے میں ہم کپڑے کی دکان کرتے تھے۔ ایک بزرگ صورت شخص تین چار خواتین کے ہمراہ تشریف لائے۔ ان کی چھوٹی صاحبزادی کی شادی تھی۔ ساتھ آنے والی خواتین بھی ان کی بیٹیاں تھیں۔ شادی شدہ۔ وہ خواتین اعلیٰ سے اعلیٰ سوٹ پسند کرتیں پھر قیمت سن کر واپس رکھ دیتیں۔ کسی ہلکے کپڑے پر ان کی نظر ٹھیر ہی نہیں رہی تھی۔ ہم نے زچ ہوکر پوچھا ’’آپ کی گنجائش کہاں تک ہے۔‘‘ بڑے صاحب نے اپنی گنجائش بتائی۔ یہ بتاتے وقت ان کی آواز کپکپا رہی تھی۔ جیسے وہ اپنے آپ سے شرمندہ ہوں۔ ہم نے ان کی استطاعت کے مطابق سوٹ دکھانا شروع کیے لیکن مسئلہ وہی کہ نہ انہیں پسند آئیں نہ ان کی صاحبزادیوں کو۔ ہم نے سمجھاتے ہوئے کہا ’’اعلیٰ سوٹوں کی خریداری کی آپ کی گنجائش نہیں ہلکے سوٹ آپ کو پسند نہیں۔ مسئلہ کیسے حل ہوگا۔‘‘ بڑے صاحب نے ڈبڈبائی آنکھوں سے بتایا ’’پانچ بیٹیاں ہیں۔ بیٹا کوئی نہیں۔ چار کی شادی کردی۔ اب آخری بیٹی کی شادی کرنی ہے۔ برسوں سے پیسہ جمع کررہا تھا۔ پیٹ کاٹ کر کمیٹیاں ڈال کر چار پانچ لاکھ جمع کیے تھے کہ بیٹی کی عزت کے ساتھ رخصتی کر سکوں۔ اچھا رشتہ ملنا ایک الگ عذاب۔ بارے خدا ایک مناسب رشتہ آیا۔ لڑکے والوں نے شرط لگائی کہ اگلے دس دن کے اندر اندر شادی کرنی ہے۔‘‘ تین روز پہلے بینک گیا۔ ساری رقم نکلوالی کہ شادی کی مصروفیت میں کون روز روز بینک آتا پھرے گا۔ بینک سے رقم نکلواکر نکلا ہی تھا کہ دولڑکوں نے کنپٹی پر پستول رکھ دی۔ چند سیکنڈز میں میرے ہاتھوں سے رقم چھینی موٹر سائیکل پر بیٹھے اور یہ جا وہ جا۔ لوگ بتاتے ہیں میں صدمے سے فوراً ہی بیہوش ہوگیا تھا۔ کسی نے جیب سے موبائل نکال کر گھر فون کردیا۔ گھر بینک سے قریب ہی تھا۔ تھوڑی سی دیر میں صاحبزادیاں روتی پیٹتی پہنچ گئی۔ مجھے کافی دیر بعد ہوش آیا۔ دامادوں اورکچھ عزیزوں سے لے کر تھوڑی سی رقم کا بندوبست ہوا ہے اس کے اندر اندر پوری شادی کرنی ہے۔ جیب میں پیسے کم ہیں لیکن اس کم بخت پسند کا کیا کریں ہلکی چیز پر رکتی ہی نہیں ہے۔ دوپہر سے دکان در دکان پھر رہے ہیں۔ دکانداروں کی جلی کٹی سن رہے ہیں۔ تمہارے چہرے پر کچھ نرمی نظر آئی اس لیے تمہیں ساری روداد سنا دی۔ جس وقت بڑے صاحب اپنی آپ بیتی سنارہے تھے ان کی صاحبزادیاں انہیں مسلسل منع کرہی تھیں۔ ’’ابو چپ ہوجائیں، ابو چپ ہوجائیں‘‘۔
یہ ان ڈاکوؤں کا قصہ ہے جو سڑکوں، گلیوں اور گھروں میں عام آدمی کو براہ راست لوٹ رہے ہیں۔ ایک ڈاکو وہ ہیں جن کا تعلق حکمران طبقہ سے ہے جو دونوں ہاتھوں سے قومی خزانے کو اور عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ صورت حال میں البتہ ایک فرق آیا ہے۔ چھوٹے چور ڈاکو تو آزاد ہیں۔ البتہ بڑے چور ڈا کوؤں میں سے چند گرفت میں آئے ہوئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ ان کی کرپشن پر گرفت کررہی ہے۔ نواز شریف پہلے وزارت عظمیٰ سے نااہل ہوئے۔ اب پارٹی صدارت سے بھی گئے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے ’’جس شخص پر قومی دولت لوٹنے کا جرم ثابت ہوچکا ہو وہ ہیرو نہیں بن سکتا۔‘‘ چیف جسٹس صاحب فرمارہے ہیں ’’قانون اور انصاف کی حکمرانی قائم کرنا ہمارا
مصمم عزم ہے‘‘۔ یہ نظام جس کے تحت قانون اور انصاف کی حکمرانی قائم کرنے کی بات کی جارہی ہے، نواز شریف کی کرپشن پر گرفت کی جارہی ہے، پنجاب حکومت کے احد چیمہ کو گرفتار کیا جارہا ہے، خود گزشتہ ستر سال سے کرپشن کو فروغ دے رہا ہے۔ جو نواز شریف کی کرپشن پر گرفت کررہا ہے وہ ادارہ خود سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس نظام نے کرپشن کو فروغ ہی نہیں دیا کرپشن کو یقینی بنایا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرنا تو کجا پھانسی پر چڑھادیں اور ان جیسے کتنوں کی گرفت کرلیں اگلے ستر برس میں بھی کرپشن ختم نہیں کرسکتے۔ پاناما پیپرز سے ایک بات عیاں ہوگئی کہ سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر میں کرپشن کو یقینی بنایا ہے۔ اس کو ترقی دینے کے لیے ادارے تخلیق کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے روس سے لے کر جنوبی امریکا تک کرپشن کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس نظام نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پہلے حکمرانوں کو کرپشن کے راستے دکھائے جائیں۔ پھر اس لوٹ مار کے پیسے کو آف شور کمپنیوں کی صورت میں اس طرح محفوظ کیا جائے کہ ہزار تحقیق کرنے پر بھی اس کا سراغ نہ ملے اور عدالت کو اقامے کو جواز بناکر کرپشن کے مجرم کو سزا دینی پڑے۔ یہ نظام کرپٹ افراد کو ایسے مواقع مہیا کرتا ہے جیسے مکھیوں کو شہد پر جمع ہونے کے۔
اس نظام میں کرپشن اور سیاسی اور حکومتی عہدے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ سزائیں دے دے کر ہلکان ہوجائے گی لیکن اس نظام میں کرپشن کے مجرموں کا کچھ نہیں بگڑنا۔ کرپشن کے چور سیاست کے ہیرو بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سزا کے ساتھ نواز شریف کی مقبولیت کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔ وہ عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اقتدار میں آکر وہ پروٹیکشن آف اکنامکس ریفارمز ایکٹ، سترھویں ترمیم اور کسی نئے این آراو کے تحت پھر گنگا نہا کر پوتر ہوجائیں گے۔ اس نظام میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ انسانوں کے منتخب نمائندے حلال وحرام کے فیصلے کرتے ہیں۔ اپنے مفاد میں قانون سازی کرتے ہیں۔ سو یہ عدالتی فیصلے، یہ برطرفیاں، یہ اہلیت اور نااہلیت کے قصے سب ڈراما ہیں۔ اس نظام میں کسی چور ڈاکو کا کچھ نہیں بگڑنا۔ سزا دینے والے بھی چور ڈاکو ہیں اور جن کو سزا دی جارہی ہے وہ بھی چور ڈاکو ہیں۔ رہے عوام تو ان کو اس ڈرامے بازی سے کچھ حاصل وصول نہیں۔ وہ اسی طرح چوروں، ڈاکوؤں کے گھیرے میں رہیں گے۔
بڑے چوروں اور ڈاکوؤں کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ حکمران کہہ رہے ہیں پارلیمنٹ بالاتر ادارہ ہے۔ چیف جسٹس نکتہ سنج ہیں آئین کو پارلیمنٹ پر بالادستی حاصل ہے۔ قرآن وسنت سے اخذ شدہ قوانین کو بالادستی حاصل ہے کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہیں کہ۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مداوا اسلام کے پاس ہے۔ مداوا خلافت راشدہ کے نظام میں ہے۔ جس میں سیدنا ابو بکر صدیقؓ خلیفہ بننے کے بعد تجارت ترک کردیتے ہیں۔ سیدنا عمرؓ ایک چادر کے احتساب کے لیے خود کو پیش کر دیتے ہیں۔ سیدنا عثمانؓ باوجود مال ودولت کے انباروں کے سادہ طرز زندگی اختیار کرتے ہیں۔ سیدنا علیؓ گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنے خلاف اور یہودی کے حق میں عدلیہ کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن اس نظام کو نافذ کرنا، ان باتوں پر عمل کرنا تو درکنار کسی کو سوچنے کی فرصت ہے نہ دماغ۔