کشمیری مجاہدین پاکستان کی دفاعی دیوار

116

پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اُسے شمال مغرب میں محب وطن قبائل ملے، کشمیر میں وہ مجاہدین ملے ہیں جنہوں نے 10 لاکھ بھارتی فوجیوں کو الجھا رکھا ہے۔ دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک ہے جس کی وجہ سے بہت سی بڑی طاقتوں پر پاکستان کی دھاک ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے لیے جان مال لٹانے والے عوام ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں اپنے ان گوہروں کی قدر نہیں۔ عوام تو کسی گنتی میں نہیں آتے۔ ان کے نام پر سارے کام ہوتے ہیں لیکن ان کے کام نہیں ہوتے۔ مزید یہ کہ عوام جانتے ہوئے بھی اس صورتحال پر خوش ہیں۔ محب وطن قبائل کو مار مار کر دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے جن کی وجہ سے کشمیر آزاد ہوا تھا اب رہے کشمیری مجاہدین جن کی وجہ سے 10 لاکھ بھارتی فوجی الجھے ہوئے ہیں انہیں چند برس مجاہدین کہاجاتا ہے اور چند برسوں کے لیے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ کبھی کشمیر کی آزادی کے لیے خون کے نذرانے دینے والوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا جاتا ہے اور کبھی کشمیر میں تحریک حریت کو دہشت گردی تسلیم کرتے ہوئے اس سے لا تعلقی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بجا طور پر توجہ دلائی ہے کہ اگر کشمیری مجاہدین نہ ہوں تو بھارت پاکستان پر حملے میں ایک لمحہ تاخیر نہ کرے گا۔ لیکن پاکستان کی جانب سے اپنے قوت کے مراکز کی ناقدری بڑی افسوسناک بات ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے اور پاکستانی کشمیر یعنی کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری اور پاکستانیوں کی شہادت کا سبب بھی یہی ہے کہ پاکستانی حکمران یکسوئی سے عاری ہیں۔ جب کہ بھارت میں کسی کی بھی حکومت ہو ان کی کشمیر پالیسی میں ذرا برابر تبدیلی نہیں ہوتی۔ جب کہ یہاں جنرل پرویز کچھ کہتے ہیں، نواز شریف کچھ اور پیپلزپارٹی کچھ۔ اور کرتے بھی الگ الگ کام ہیں جب کشمیریوں کی ہمت افزائی کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم کشمیریوں کے ہنمواؤں پر پابندیاں لگاتے ہیں۔ جب بھارتی دہشت گردی کو لگام دینے کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمارے حکمران دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ جب پاکستانی پانی پر بھارتی قبضہ ہوتا ہے تو یہاں خاموشی ہوتی ہے۔ گویا پانی پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں۔ بھارت نے درجنوں ڈیم بنالیے لیکن یہاں حکمران خاموش بیٹھے رہے اور جب ڈیم بن گئے پاکستان کا پانی بھارت کے قابو میں آگیا تو لگے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے۔ یہی حال پاکستان کے لیے باعث فخر ایٹمی پروگرام کے ساتھ بھی کیا گیا ہے ہر وقت ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ حالانکہ اب یہ پروگرام محض پروگرام نہیں رہا یہ اب ایٹمی قوت ہے اور رول بیک سے بہت آگے کے مراحل میں ہے۔ اس کی بنیاد پر تو پاکستان کو عالمی برادری میں اپنی بات منوانے میں آسانی ہونی چاہیے۔ لیکن اس کو بھی مشتبہ بنادیاگیا ہے۔ یہ سارے مسائل صرف اس لیے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو ایک دوسرے کی ٹانک گھسیٹنے سے فرصت نہیں اپنے ہی اداروں کے خلاف حکمران صف آرا ہیں۔ سیاست دان بھی یہی کام کررہے ہیں۔ کہا جارہاہے کہ عدالت کسی کے کہنے پر فیصلے دے رہی ہے اگر ایسا ہے اور کبھی کبھی لگتا بھی ہے کہ ایسا ہی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کون کہلوا رہا ہے۔ کوئی ملک دشمن قوت تو یہ نہیں کروارہی لیکن جو بھی یہ کررہاہے یا کروارہا ہے اسے ان اقدامات کے نتائج سے آگاہ رہنا چاہیے۔ اپنے طاقت کے مراکز کی بے توقیری کا انجام یہی ہوتا ہے کہ ملک خود بے توقیر ہوجاتا ہے۔ اپنی قوت کو مجتمع کرکے ملک کو قوت دی جائے۔ حکومتیں بدلتی رہیں، قومی اہمیت کے مسائل پر ایک ہی پالیسی دینی چاہیے۔ ہمیں تو بس ایک ہی سبق پڑھایاجاتا ہے کہ طاقت کا مرکز فوج ہے اور بس۔ بلاشبہ فوج طاقت کا مرکز ہے۔ ایٹمی پروگرام، سرحدوں کی حفاظت، دشمن کے حملوں اور عزائم پر نگاہ رکھنا یہ سارے کام وہ کرتی ہے لیکن جن قوتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ فوج کو طاقتور بناتی ہیں۔ انہیں پریشان نہ کیا جائے۔