حالات کے دوراہے پر کھڑی ن لیگ

301

میاں نوازشریف کی سیاست کا ایک اور دور اس وقت ناخوش گوار انجام کو پہنچا جب مسلم لیگ ن میں ان کی قیادت اور سیادت بلکہ ناگزیریت کا ایک باب بند ہو کر قیادت ان کے برادر خُرد میاں شہباز شریف کو منتقل ہوگئی جب کہ خود نوازشریف تاحیات قائد بنا دیے گئے۔ نوازشریف کی سیاسی زندگی میں اس موڑ کے آنے کا مطلب ان کے سیاسی کردار کا خاتمہ یا فعال سیاست سے ان کی تاحیات رخصتی ہر گز نہیں۔ مریم نواز کے ٹوئٹس کے مطابق اگر واقعی نوازشریف ایک نشہ ہیں تو پھر یہ نشہ ہرن ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔ قیادت کی منتقلی کے اس افسانے کو ایک خوب صورت موڑ دے کر یوں چھوڑ دیا گیا کہ میاں نواز شریف کی تجویز پر پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ نے میاں شہباز شریف کو قائمقام صدر منتخب کر دیا۔ میاں نواز شریف اور ان کی صاحب زادی مریم نواز نے شہباز شریف کو پارٹی کا قائمقام صدر منتخب ہونے پر مبارکبادی اور یوں شریف خاندان میں دھڑے بندی کی افواہیں اس مرحلے پر دم توڑ گئیں۔ تاہم ایک بات سیاسی مبصرین کو کھٹکتی رہی وہ چودھری نثار علی خان کی اجلاس سے غیر حاضری تھی۔ چودھری نثار کو بسا اوقات مسلم لیگ میں خود اپنی سوچ اور بارہا میاں شہباز شریف کی سوچ کا ترجمان کہا اور جانا جاتا ہے۔ گویا شہباز شریف کے ساتھ ان کی گاڑھی چھنتی ہے۔ اس لیے تبدیلیِ قیادت کے اس اہم مرحلے میں چودھری نثار علی خان کی عدم موجودگی کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے آئی۔ سوائے اس کے کہ انہوں نے آئندہ کسی بھی اجلاس میں ڈان لیکس کا معاملہ چھیڑ کر اپنی صفائی پیش کر نے کا اعلان کر رکھا تھا۔ شاید کسی بدمزگی سے بچنے کے لیے چودھری نثار علی خان نے اس اجلاس سے غیر حاضر رہنے میں عافیت سمجھی۔ وگرنہ وہ خود میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے ساتھ کام کر نے کا اعلان کرچکے تھے مگر اس سے اگلی نسل یعنی مریم نواز یا حمزہ شہباز کو قیادت منتقل ہونے کی صورت میں انہوں اپنی راہیں جدا کرنے کا اشارہ بھی دیا تھا۔ میاں نواز شریف کے بعد قیادت کی شہباز شریف کو منتقلی چودھری نثار کے لیے آئیڈیل صورت حال ہے۔ بہرحال مسلم لیگ ن کے لیے مجموعی طور پر موسم اچھا نہیں رہا۔
ساڑھے تین عشروں سے بالخصوص پنجاب اور بالعموم ملک بھر کی سیاست اور اقتدار پر غلبہ رکھنے والی جماعت ایک بار پھر بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ مرکز اور پنجاب میں اس جماعت کی حکومت تو موجود ہے مگر یوں لگتا ہے کہ حالات کی باگ اب اس کے ہاتھ میں نہیں رہی۔ مسلم لیگ ن کی خاموش اتحادی پیپلزپارٹی بھی آزمائش کے اس لمحے اسے چھوڑ کر دور جا چکی ہے۔ گویا کہ میثاق جمہوریت کی کچی ڈور بھی ٹوٹ چکی ہے اور ساتھ نباہنے کے عہد وپیمان اور میثاق ہواؤں میں تحلیل ہو چکے ہیں۔ اب پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ن کے مدمقابل ایک تیسرا فریق کھڑا ہو گیا ہے جو میثاق جمہوریت کو مانتا ہے نہ اس میں شامل جماعتوں کو تسلیم کر رہا ہے۔
نوازشریف بار بار اس انجام کا شکار کیوں ہوتے رہے۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا اسٹائل اور ذہنی سوچ وساخت میں مطلق طاقت اور اختیار کی خواہش ہمیشہ بے تاب اور موجزن رہی ہے۔ یہ شاہانہ اسٹائل ہے اور ٹھیٹھ جمہوریت میں یہ انداز رواج نہیں پاتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا سیاسی ظہور اور عروج کے سفر کا کامیاب آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا اور اس نظام اور اسٹائل نے ان کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔ جمہوریت ادارہ بندی کا نام ہے۔ قبول وایجاب اور چیک اینڈ بیلنس کا نام ہے۔ یہاں اختیارات کی ایک قرینے اور سلیقے سے ترتیب اور تقسیم ہوتی ہے۔ شاہانہ اسٹائل میں اختیار کی مرکزیت ہوتی ہے۔ اس اسٹائل میں ظل سبحان اور اوتار کی ذہنیت غالب ہوتی ہے اور یوں ’’انا ولا غیری‘‘ کے رویے جڑ پکڑتے ہیں۔ نواز شریف کے سیاسی عروج وزوال میں ان کی اس سوچ کا گہرا دخل رہا ہے۔ اسی سوچ نے انہیں ہمیشہ بڑے فیصلوں کی راہ پر ڈالا اور یوں ان کی گاڑی بھاری مینڈیٹ کے باجود جی ایچ کیو کی دیواروں سے جا ٹکراتی رہی۔
پارلیمان کے ذریعے اور جمہوریت کے نام پر ملک کے قوانین، عسکری اور سیاسی کردار کو تبدیل کرنے خواہش میں ملک کی ہیئت مقتدرہ کے ساتھ ان کی جو معاصرانہ چشمک ابتدائے سفر ہی میں چل پڑی تھی کسی طور کم ہونے میں نہ آئی۔ اس خلیج کو پاٹنا اب قریب قریب ناممکن ہو چکا تھا۔ شہباز شریف اس خلیج کو کم کر سکتے ہیں مگر سردست حالات ان کے لیے بھی زیادہ موافق نظر نہیں آتے۔ اس خلیج کو دور کرنے کے لیے مسلم لیگ ن کے لیے امید کی واحد کرن شہباز شریف ہی ہیں کیوں کہ نوازشریف کے مقابلے میں ملک کی ہیئت مقتدرہ انہیں معتدل قرار دیتی رہی ہے جس کا ایک ثبوت حال ہی میں جنرل پرویز مشرف کی طرف شہباز شریف کو وزیر اعظم بننے کی پیشکش کا انکشاف اور شہباز شریف کی طرف سے اس کی تصدیق ہے۔ یہ نوئے کی دہائی کی بات ہے اب حالات بڑی حد تک تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن کی نئی قیادت کو درپیش سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ ملک کی طاقتور ہیئت مقتدرہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوں کہ وہ دل میں تنہا بڑے فیصلوں کا شوق اور جنون نہیں رکھتے۔ شہباز شریف اپنا یہ تاثر اور پیغام اصل مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے تو مسلم لیگ حالات کی دلدل سے باآسانی باہر نکل سکتی ہے۔