تاپ سے تاپی تک

255

وسط ایشیا کی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کے حامل ملک ترکمانستان نے جنگ زدہ افغانستان کو فروخت کرتے ہوئے اپنی گیس پاکستان تک پہنچانے کا خواب دیکھا تھا تو بلاشبہ اس کے پیچھے محض اس سے ملتی جلتی پاکستان کی ضرورت اور مارکیٹ نہیں ہو گی۔ لامحالہ اس کا تعلق پاکستان میں چین کے منصوبوں سے بھی ہوتا اور یہی بھنک بھارت کو پڑ گئی تھی کہ جو توانائی اور تجارت کے اس کھیل میں آن ٹپکا۔ یوں بنیادی طور پر سہہ فریقی منصوبے میں چوتھا فریق بھی گنڈاسا لیے پہنچ کر اپنی شمولیت پر اصرار کرنے لگا۔ بھارت کی اس خواہش کو تقویت فراہم کرنے کے لیے کابل کے حکمران پہلے سے تیار بیٹھے تھے سو انہوں نے بھارت کی شمولیت کے بغیر تاپ کو آگے بڑھانے سے صاف انکار کیا۔ کمزور اور ڈولتی ہوئی افغان حکومت کی عملی اہمیت تو شاید کچھ زیادہ نہ تھی مگر دنیا کے سامنے افغانستان کی یہی جائز اور قانونی حکومت تھی اور معاہدوں کی منظوری اور منسوخی پر اسی کا اختیار تھا۔ منصوبے میں شمولیت کے لیے بھارت کے اصرار اور بھارت کے بغیر منصوبے میں شامل ہونے سے افغانستان کے انکار نے تاپ کے تاپی میں بدلنے کی راہ ہموار کی۔ عین ممکن ہے کہ یہ تنہا بھارت کا دباؤ نہ ہو بلکہ ان مغربی ملکوں کی خواہش بھی پس پردہ کارفرما ہو جو بھارت میں بے تحاشا سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ اس طرح یہ علاقائی تجارت سے زیادہ ایک عالمی تجارت اور خواہشات کا معاملہ تھا۔
بھارت کی منصوبے میں اصولی شمولیت کے بعد تاپ کی اصطلاح باقاعدہ طور پر تاپی میں تو بدل گئی مگر معاملات میں سست رفتاری بھی آگئی۔ تاپ بنیادی طور پر طالبان کے دور میں شروع ہونے والا منصوبہ تھا اور کئی دوسرے تجارتی معاملات اور فیصلوں کی طرح شاید اس منصوبے پر رضامندی بھی طالبان کے سرخ دائرے میں آنے کی وجہ بنی اور طالبان کے ساتھ امریکا اور اتحادیوں نے تراشیدم، پرستیدم، شکستم کا معاملہ کر دیا وگرنہ تو طالبان مغرب کو گل بدین حکمت یار جیسے ریڈکل کمانڈر کے خوف سے نجات دلانے والے مسیحا بن کر سامنے آئے تھے۔ تاپ کے تاپی بننے کے بعد پاکستان کا جوش وخروش ٹھنڈا پڑ گیا تھا اور پاکستان ایران سے گیس خریدنے کے لیے بے چین ہو گیا تھا مگر ایران سے درآمد ہونے والی گیس سے پاکستان کی معیشت کو سہارا مل سکتا تھا اور زیادہ سے زیادہ چین ہی مستفید ہوسکتا تھا اس لیے امریکا اور بھارت کے فائدے کے لیے تاپی پر عمل درآمد ضروری تھا۔ اس طرح پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ کھٹائی میں پڑتا چلا گیا اور تاپی منصوبہ ہی قابل عمل منصوبے کے طور پر میز پر موجود رہا۔ آخر کار افغانستان کے صوبے ہرات میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان پر مشتمل گیس پائپ لائن کے افغان حصے کے منصوبے کا افتتاح کردیا گیا۔ افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی، افغان صدر اشرف غنی، ترکمانستان کے صدر قربان گلی بردی محمدوف اور بھارت کے خارجہ امور کے ریاستی وزیر مبشر اکبر جب کہ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل نکلسن اور ناٹو کے اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔ واضح رہے کہ یہ وہی مبشر اکبر ہیں جو بھارت کے معروف انگریزی اخبار ’’دی ایشین ایج‘‘ کے مالک ومدیر اور ایم جے اکبر کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
یہ 1700 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن جو ترکمانستان سے شروع ہو کر بھارت میں ختم ہوگی۔ اس منصوبے پر دس ارب ڈالر کی لاگت آئے گی۔ یہ پائپ لائن ابتدائی طور پر ستائیس ارب مکعب میٹر گیس سالانہ فراہم کرے گی جس میں دو ارب مکعب میٹر افغانستان اور ساڑھے بارہ ارب مکعب میٹر پاکستان اور بھارت استعمال کریں گے۔ منصوبے کا سنگ بنیاد 2015 میں رکھا گیا تھا۔ منصوبے میں سب سے اہم رکاوٹ افغانستان کی صورت حال تھی کیوں کہ پائپ لائن کو افغانستان کے ان علاقوں میں سے بھی گزرنا ہے جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ چوں کہ تاپی منصوبے پر ابتدائی بات چیت طالبان کے دور ہی میں شروع ہوئی تھی۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوگیا تھا اس لیے اب طالبان نے اس منصوبے کو خطے اور افغانستان کی معیشت کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے پائپ لائن کی حفاظت کا اعلان کیا ہے۔ تاپی منصوبے کی سب سے اہم بات طالبان کی یہی ضمانت ہے۔ یوں لگتا ہے کہ طالبان کو قائل کرنے میں خاصا وقت لگا ہے اور خطے میں آگ وخون کے کھیل کے شعلے کچھ کم ہونے لگے ہیں۔
تاپی منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ افغانستان کا استحکام پاکستان کا استحکام ہے اور یہ کہ تاپی منصوبہ خطے کے ممالک کو متحد کرنے میں مدد دے گا اور اس سے سماجی اور اقتصادی ترقی ہوگی۔ اس کے ثمرات سے پورا خطہ مستفید ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبہ ایک حقیقت بن چکا ہے گوادر بندرگاہ وسط ایشیا سمیت دنیا بھر کو سہولت فراہم کرے گی۔ افتتاحی تقریب میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی غیر موجودگی ایک سوالیہ نشان تھا۔ بھارت نے اس تقریب میں ایک جونیئر مسلمان وزیر اور صحافی ایم جے اکبر کو بھیجنا کیوں ضروری سمجھا یہ سوال بھی اہم ہے۔
تاپی منصوبے میں طالبان کی رضامندی اور اس کی حفاظت کی ذمے داری بھی افغانستان کی زمینی صورت حال کو تسلیم کرنے کے مترداف ہے۔ تاہم تاپی منصوبے کے حوالے سے دو خدشات اب بھی موجود ہیں۔ طالبان اور ان کے منحرف گروپ کی طرف سے پائپ لائن کی حفاظت کے اعلان کے باوجود 744کلو میٹر پائپ لائن کی حفاظت اب بھی سوالیہ نشان ہے۔ افغانستان کے ریڈیو آزادی کے مطابق ایران اس منصوبے کو پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے متوازی اور مخالف منصوبے کی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ تاپی پائپ لائن افغانستان کے جن علاقوں سے گزر رہی ہے ان میں صرف طالبان اور ان کے منحرف رسول اخوند گروپ ہی کی موجودگی نہیں بلکہ ایران سے وابستہ عسکری گروپوں کا اثر رسوخ بھی ہے۔ تاپی منصوبے کے بخیر وخوبی آغاز کے بعد اب بھارت کو سی پیک منصوبے کو بھی ہضم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ بھارت کم ازکم اختلافات کے باوجود انسانی بھلائی کے منصوبوں کی حمایت کا سبق طالبان ہی سے سیکھ لے تو خطے پر منڈلاتے کشیدگی کے سائے بڑی حد تک چھٹ سکتے ہیں۔