طالبان کو افغان صدر کی پیشکش

382

افغان صدر اشرف غنی کا یہ بیان قابل تحسین اور بڑی حد تک امن کی خواہش کا مظہر ہے کہ ’’طالبان کو سیاسی جماعت تسلیم کرتے ہیں اور پاکستان سے مذاکرات چاہتے ہیں‘‘۔ دیر آید درست آید۔ کابل میں ایک کانفرنس، جس میں 25 ممالک نے شرکت کی، اس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے طالبان کو پیشکش کی کہ وہ کابل سمیت جہاں چاہیں اپنا دفتر کھول لیں، قیدیوں کو بھی رہا کردیں گے اور طالبان انتخابی عمل میں بھی حصہ لے سکتے ہیں، جنگ بند ہونی چاہیے، اعتماد سازی کا عمل شروع کررہے ہیں اور اس کے لیے کوئی پیشگی شرط عاید نہیں کر رہے۔ اشرف غنی نے پاکستان کے حوالے سے کہاکہ ماضی کو بھلاکر نئے باب کا آغاز کرنے کی خواہش ہے، امن معاہدے کو مربوط سفارتی حمایت حاصل ہوگی۔ پاکستان میں تعینات افغان سفیر نے صدر اشرف غنی کا یہ پیغام مشیر قومی سلامتی جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کو پہنچادیا ہے۔ پاکستان کی تو ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان سے پر امن تعلقات قائم کیے جائیں اور بارہا یہ کہا جاچکا ہے کہ افغانستان میں امن سے پاکستان میں بھی امن ہوگا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ افغانستان الزام لگاتا ہے کہ وہاں دہشت گردی اور تخریب کاری میں پاکستان ملوث ہے اور پاکستان میں جو کچھ ہورہاہے اس کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں اور پاکستانی حکمران اس کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔ پاکستان نے یہ بھی کہاہے کہ اس نے تو پاک افغان سرحد پر جانچ پڑتال کے لیے کئی چوکیاں بنادی ہیں لیکن افغانستان کی طرف سے ایسا کچھ نہیں ہوا چنانچہ دہشت گرد بلا کسی روک ٹوک کے پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں۔ پاکستان نے کئی برس سے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے جو سوویت یونین کے حملے سے بے گھر ہوکر پاکستان آگئے تھے۔ پاکستان اب تک مہمان نوازی کررہاہے لیکن کابل حکومت نے کبھی اس کو تسلیم نہیں کیا۔ دوسری طرف یہ بھی ہوا ہے کہ افغانستان سے در آنے والے دہشت گردوں کو افغان مہاجرین کی بستیوں میں روپوش ہونے کی سہولت مل جاتی ہے چنانچہ اب ان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ حکومت پاکستان کی کوتاہی سے افغان مہاجرین کو پورے ملک میں پھیل جانے کا موقع مل گیا۔ شیعہ افغانوں نے پناہ کے لیے ایران کا انتخاب کیا تھا لیکن وہاں ان کا باقاعدہ اندراج کیا گیا اور ان کو کیمپوں تک محدود رکھا گیا۔ یہاں نادرا کی نالائقی یا رشوت خوری کی وجہ سے کئی غیر پاکستانیوں نے شناختی کارڈ بنوالیے۔ بہر حال اب افغان صدر اشرف غنی نے صلح کا ہاتھ بڑھایا ہے اس کا بھرپور استقبال کیا جانا چاہیے۔ لیکن اصل مسئلہ افغان طالبان کا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ کیا طالبان کو سیاسی جماعت تسلیم کرنے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی پیشکش کو امریکی تائید بھی حاصل ہے یا نہیں۔ امکان تو یہی ہے کہ اشرف غنی امریکا کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاسکتے تاہم ان کے اقدامات کی توثیق امریکا کی طرف سے ہونی چاہیے ورنہ طالبان اس پیشکش کو اپنے لیے ایک جال سمجھیں گے۔ ان کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ پہلے افغانستان پر قابض غیر ملکی فوجیں ان کے ملک سے نکل جائیں پھر کسی بھی قسم کے مذاکرات ہوں گے۔ امریکا کو 17 سال سے افغانستان میں جس ذلت، رسوائی اور شکست کا سامنا ہے اس کے پیش نظر وہ خود بھی فرار ہونے کو ترجیح دے گا۔ لیکن اس کے لیے اسے کسی مضبوط بہانے کی تلاش ہے۔ امریکا اب تک اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتا رہا ہے اور اس کے ہر طرح کے شرمناک تعاون کے باوجود وہ پاکستان سے’ڈو مور‘۔ کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ امریکا نے حقانی نیٹ ورک کی کارروائیوں کو بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے کہ وہ اس گروہ کی پشت پناہی کرتا ہے جب کہ یہ بات بارہا کہی جاچکی ہے کہ حقانی گروہ افغانستان ہی میں روپوش ہے اور اس سے نمٹنے کی ذمے داری امریکا اور کابل انتظامیہ کی ہے۔ اب تو داعش نے بھی افغانستان میں قدم جمانے شروع کردیے ہیں لیکن یہ بھی کہاجاتا ہے کہ داعش امریکا ہی کا کاشتہ پرداختہ ہے۔ ابھی تو یہ دیکھنا ہے کہ اشرف غنی کی اس فراخدلانہ پیشکش پر طالبان کا کیا رد عمل آتا ہے۔ افغان صدر نے کوئی پیشگی شرط نہیں رکھی ہے اور ان کا کہناہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے ملک کو بچانے کے لیے کررہے ہیں اور اس طرح 17 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ لیکن کیا صدر اشرف غنی امریکا سے بھی یہ کہہ سکیں گے کہ اب وہ ان کے ملک کا پیچھا چھوڑ دے جب کہ انہوں نے کچھ دن پہلے ہی کہا تھا کہ امریکا کے بغیر ان کی حکومت تین دن بھی نہیں چل سکتی۔ کیا طالبان ایسی کمزور اور امریکی بیساکھیوں پر کھڑی کابل حکومت کی پیشکش قبول کرلیں گے؟ افغان طالبان کا کیا فیصلہ ہوتا ہے یہ تو ان کی شوریٰ ہی طے کرے گی تاہم طالبان کو پیشکش قبول کرکے آزمالینا چاہیے کہ اشرف غنی کتنے پانی میں ہیں۔ امریکا بھی طالبان سے مذاکرات کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور طالبان نے بھی بغیر کسی تیسرے کی شمولیت کے براہ راست امریکا سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے تاجکستان سے براستہ افغانستان، تاپی گیس پائپ لائن کے تحفظ کے لیے افغان طالبان ضمانت دینے پر تیار ہیں جس سے اندازہ ہے کہ وہ بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانے کو تیار ہیں۔ اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ کئی ممالک کی طرف سے طالبان پر دباؤ ہے کہ وہ امن عمل میں شامل ہوجائیں۔ اقوام متحدہ نے بھی اشرف غنی کی پیشکش کو سراہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ امریکا کا رد عمل کیا ہوگا۔ اشرف غنی نے پہلے امریکا سے اجازت تو لے لی ہوگی۔