کنٹرول لائن سے آبادی کا انخلا مضمرات اور اثرات

158

عارف بہار

آزادکشمیر حکومت کی طرف سے کنٹرول لائن کے انتہائی کشیدہ علاقوں سے آبادی کے مرحلہ وار انخلا کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ جس کے مطابق پہلے مرحلے پر کنٹرول لائن کے ملحقہ علاقوں سے آبادی کو محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا جائے گا اور اگر فائرنگ اور کشیدگی کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو اس کے بعد آبادی کے انخلا اور منتقلی کا دائرہ بتدریج بڑھایا جائے گا۔ رپورٹوں کے مطابق وزیر اعظم آزادکشمیر نے اس حوالے سے متعلقہ حکام کو اقدامات کی ہدایات بھی دی ہیں۔ کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں کے عوام اس وقت انتہائی کربناک حالات سے گزر رہے ہیں۔ انسان، مویشی، کھیت کھلیان، مکان اور دکان غرضیکہ کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی گاؤں میں کوئی لاشہ نہ اُٹھتا ہو۔ بھارتی فوجی تاک کر انسانوں پر گولیاں برساتے ہیں۔ گولیوں کی زد میں آنے والے اکثر لوگ معصوم اور نہتے ہوتے ہیں ان میں کوئی درانداز نہیں ہوتا، کوئی اسلحہ بردار نہیں ہوتا، کسی کے ہاتھ میں گرنیڈ اور بندوق نہیں ہوتی۔ یہ آزادکشمیر کا کوئی عام شہری ہوتا ہے جو غمِ روزگار میں گھر سے نکلا ہوتا ہے اور بھارتی فوج کی نشانہ وار گولی جس کا کام تمام کرتی ہے اور یوں ایک اور گھر اور خاندان میں المیہ کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس صورت حال میں کنٹرول لائن پر 2004 کی جنگ بندی عملاً ختم ہو چکی ہے۔ جن علاقوں میں بظاہر امن ہے وہاں بھی ہر دم خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں اور کچھ ہوجانے کا دھڑکا عوام کو غیر یقینی کے عذاب میں مبتلا رکھے ہوئے ہے۔ نیلم اور لیپا کی حسین وادیوں میں یا تو بھارتی فوج کی گولہ باری ماحول پر خوف طاری کیے ہوئے ہے یا کچھ ہوجانے کا احساس مقامی افراد اور سیاحوں کو خوف ودہشت میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ یوں صاف دکھائی دیتا ہے ملک بھر سے لاکھوں سیاحوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے والی وادیاں آنے والے گرم موسم میں سیاحوں کے لیے بانہیں وا نہیں کر سکیں گی۔ کشیدگی کے باعث اس بار یہ وادیاں سونی سونی رہنے کا خدشہ ہے۔ نکیال سیکٹر میں تو انسانی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اور یہاں بستیاں اور گھر ماتم کدوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
سول اور عسکری حکام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مستقبل قریب میں یہ سلسلہ کم تو ہو سکتا مگر کلی طور پر اس کے خاتمے کی صورت نظر نہیں آتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کنٹرول لائن کے انتہائی کشیدہ علاقوں سے آبادی کے انخلا کا منصوبہ زیر غور ہے۔ یہ ایک بڑا اور ملکی سطح کا منصوبہ ہے جس کے لیے بہت وسائل درکار ہوں گے۔ آزادکشمیر حکومت کے پاس اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے فنڈز ہیں نہ استعداد کار۔ ملک کے دفاعی اداروں کی خواہش کے جواب میں آزادکشمیر حکومت پہلے بھی کئی بار فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے منصوبے پر عمل درآمد سے معذوری ظاہر کرتی چلی آئی ہے۔
دفاعی ادارے بھی طویل تجربے کے بعد اب اس بات کے قائل ہوچکے ہیں کہ کنٹرول لائن پر آبادی کو محفوظ بنانے اور بے دھڑک اور موثر جوابی کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے کنٹرول لائن کے قریبی علاقوں سے آبادی کا انخلا ناگزیر ہے۔ اس منصوبے سے متاثر ہونے والی آبادی کو خیموں میں عارضی بستیوں میں تادیر رکھنا ممکن ہوگا نہ جائز۔ متاثرین کی باعزت آبادکاری کے لیے متبادل مکانوں کی سہولت ناگزیر ہے۔ زمین کی خریداری، مکانوں کے لیے معاوضے اور خاندانوں کی منتقلی کا معاملہ خطیر رقم کا متقاضی ہے۔ اس کے لیے متعلقہ حکام اور اداروں کے حسن تدبیر، دیانت اور سلیقہ و صلاحیت کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ آبادی کے انخلا سے پہلے اس کے حسن وقبیح پر مکمل سوچ بچار لازمی ہے۔ مناسب وسائل کا انتظام بھی ایک اہم معاملہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وقتی اور جذباتی فیصلہ کرکے متاثرین کو آبائی علاقوں سے تو نکال لیا جائے اور بعد میں انہیں کھلے آسمان تلے لاکر چھوڑ دیا جائے اور ایسے میں متاثرین کے پاس واپسی کی راہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ کنٹرول لائن کی قریبی علاقوں کی آبادی کے انخلا سے پہلے اس کے مضمرات اور اثرات کا بھرپور جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ متاثرین کے لیے آبائی علاقوں کو چھوڑنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ہنستے بستے گھر اور کھیت وکھلیان، آبائی قبرستان چھوڑنا آسان نہیں ہوتا اس لیے مقامی آبادی کی رضامندی کو ہر حال میں مقدم رکھا جانا بھی ضروری ہے۔