امریکا، انڈیا اور اسرائیل کی مدد سے گزشتہ ہفتے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے تحت ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے لیے جو تحریک پیش کی گئی تھی وہ پاکستان کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں ناکام ہوگئی۔ اس کا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا، دنیا میں اس کی ساکھ کو خراب کرنا اور معیشت کو نقصان پہنچانا تھا۔ اگر پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہوجاتا تو پاکستانی معیشت جو پہلے ہی شدید مسائل کا شکار ہے اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا، بیرونی دنیا اور عالمی اداروں سے امداد یا قرضوں کا حصول مشکل ہوجاتا، بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے یہاں کاروبار میں مشکلات بڑھ جاتیں، اس وقت پاکستان کو بیرونی سطح پر بے حد دباؤ کا سامنا ہے۔ تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے جارہے ہیں، بیرونی قرضوں کی مدد سے آئی ایم ایف کو جون 2018ء تک 3 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے، اسی طرح حکومتی اخراجات میں اضافہ اور محاصل میں کمی کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے اور آئندہ چار ماہ میں انتخابات کی وجہ سے اس خسارے کے مزید بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اس سارے پس منظر میں پاکستان کا بین الاقوامی ادائیگیوں کا توازن (BOF) بگڑنے سے پاکستانی معیشت شدید بحران کا شکار ہوسکتی ہے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جو دنیا میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی مالی امداد اور منی لانڈرنگ جیسے مالی جرائم پر نظر رکھتی ہے اور اُن کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتی ہے۔ پاکستانیوں نے تو شاید اس ادارے کا نام پہلی بار سنا ہو مگر اصل میں یہ ادارہ 1989ء سے دنیا بھر میں اِن مالی جرائم کی حوصلہ شکنی کے لیے کام کررہا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس میں بین الاقوامی سیاست بھی شامل ہوجاتی ہے اور طاقتور ممالک کسی ملک پر دباؤ ڈالنے یا اس کی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے بھی اسے آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں بلکہ اسی طرح جیسے اقوام متحدہ کو امریکا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور جس ملک کو سزا دینی ہو پہلے اس کے خلاف قرار داد سلامتی کونسل سے منظور کی جاتی ہے بعد میں اس پر تجارتی و معاشی پابندیاں لگادی جاتی ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو اس پر حملہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
تو بات ہورہی تھی ایف اے ٹی ایف جو فرانس کے شہر پیرس میں 1989ء میں قائم ہوا۔ قیام کے وقت اس ادارے کے 16 رکن تھے، جو اب بڑھ کر 37 ہوچکے ہیں۔ شروع میں اس ادارے کی زیادہ توجہ منی لانڈرنگ پر تھی، غیر قانونی طریقے سے رقوم کی ترسیل دُنیا کی معیشت کے لیے ایک مسئلہ رہی ہے اور اسی سے کرپشن، ٹیکس کی چوری اور بلیک مارکیٹنگ کو فروغ ملتا ہے، اس کو روکنے کے لیے اس ادارے نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قوانین بھی وضع کیے، تیکنیکی اقدامات بھی کیے۔ 9/11 کے بعد دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام کے لیے اس ادارے نے دنیا کے سامنے مختلف سفارشات پیش کیں، اس سلسلے میں گرے اور بلیک لسٹ مرتب کی ہے، وہ ممالک جو اس ادارے سے بالکل تعاون نہیں کرتے ان کو بلیک لسٹ میں شامل کردیا جاتا ہے جب کہ گرے لسٹ میں شامل وہ ممالک ہیں جن پر نظر رکھی جائے گی یا دوسرے الفاظ میں وہ واچ لسٹ میں شامل ہیں۔ گزشتہ سال لیبیا، میانمار، صومالیہ، شام، ترکی، وینز ویلا اور یمن واچ لسٹ میں شامل تھے۔ اسی طرح پاکستان 2012ء سے 2015ء تک واچ لسٹ میں شامل تھا۔ پاکستان میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے لیے مرکزی بینک نے کئی اقدامات کیے ہیں اس طرح صدرِ پاکستان نے ٹیرزم ایکٹ 1997ء میں ترامیم کی ہیں مگر ان اقدامات اور پالیسیوں میں بہت کمزوریاں ہیں جن کی بیرونی دنیا نے نشاندہی کی ہے۔ اسی طرح اقدامات اور پالیسیوں پر صحیح معنوں میں عمل درآمد بھی ایک مسئلہ ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ بااثر اور طاقتور حلقے اور کاروباری ادارے، کاروباری افراد جو ٹیکس کی چوری کررہے ہیں یہاں تک کہ ٹیکس کے گوشوارے تک جمع نہیں کراتے، اُن کے لیے حکومت کو قدم اُٹھانا چاہیے کیوں کہ نہ کالا دھن ہو گا اور نہ اس کو بیرون ملک بھجوانے کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ اس وقت مختلف محتاط اندازوں کے مطابق ملکی معیشت کا جو حجم ہے اتنی ہی غیر دستاویزی یا انڈر گراؤنڈ اکنامی ہے۔ یہ رقم مختلف ذرائع سے باہر جاتی ہے اور پھر ترسیلات زر کی شکل میں واپس آجاتی ہے۔
ایف اے ٹی ایف (FATF) نے ایشیا پیسیفک گروپ کے ذمے لگایا ہے کہ پاکستان ٹیرر لسٹ فنانسنگ کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کرے گا ان کی رپورٹ جون تک اس کے ہیڈ آفس کو پہنچائی جائے، یعنی پاکستان پر خطرہ عارضی طور پر ٹلا ہے جون کے مہینے میں یہ خطرہ پاکستان کو پھر جکڑ سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان ایک نگران حکومت کے تحت چل رہا ہوگا۔