شاہراہ دستور سے بڑے بڑے فیصلے اچھل کر باہر آرہے ہیں‘ تشویش بھی بڑھ رہی ہے کہ ملک میں عام انتخابات سر پر ہیں اور چند ماہ کے بعد عام انتخابات کے ذریعے نئی پارلیمنٹ وجود میں آنے والی ہے سینیٹ کے انتخابات پر بھی بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں اور جائز سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں صادق اور امین کی شق کہاں کھو گئی ہے ملک کا کوئی چوک چوراہا ایسا نہیں جہاں یہ بحث نہ ہو رہی ہو، عدل کا مطلب ہے کہ انصاف کے ترازو میں سے ظلم اور ناانصافی کا بوجھ اتار کر دونوں پلڑے مساوی کردیے جائیں۔ سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں کے لیے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں ضابطے بھی طے کردیے گئے ہیں یہ اس وقت تک نافذ العمل رہیں گے جب تک ان پر پارلیمنٹ کی مہر ثبت رہے گی، اگر دلائل دیے جاتے رہے کہ انڈا پہلے یا مرغی تو بات نہیں بنے گی۔ بلا شبہ آئین بالا دست ہے‘ لیکن آئین وہی ہے جس کی تشریح جج کریں گے ان فیصلوں پر رویوں میں عدم برداشت بڑھتی رہی تو مسائل بھی سراٹھاتے رہیں گے۔
ملکی سیاست میں حالیہ مدو جذر2013 کے انتخابات کے نتائج سے شروع ہوا‘ پانچ سال مکمل ہونے جارہے ہیں لیکن یہ ابھی تک جاری ہے مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت یہ گلہ کر رہی ہے کہ اسے سیاسی میدان سے باہر کیا جارہا ہے سینیٹ کے ٹکٹوں کے حوالے سے فیصلے سے اسے بدترین دھچکا لگا ہے اس فیصلے پر سیاسی جماعتوں کی خاموشی اور آہوں اور سسکیاں لیتی ہوئی بے بس پارلیمنٹ آہ و فغاں کی تصویر بنی ہوئی ہے، مسلم لیگ (ن) نواز شریف کو پارٹی عہدے کے نااہل قرار دیے جانے کے بعد اس پر نہایت کڑا وقت ہے یہ سیاسی تنہائی اسے غیر معمولی طاقت ور بھی بنا سکتی ہے اور غیر معمولی نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ عمران خان کی کمزور اور حکمت سے خالی سیاسی منصوبہ بندی نے تحریک انصاف کی توقع کے برعکس نواز شریف کی سیاسی اہمیت بڑھا دی ہے ہونا تویہ چاہیے تھا کہ عمران کو اگر مضبوط اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھانا تھا تو تحریک انصاف فرنٹ فٹ پر کھیلتی لیکن ایسا نہیں ہوا جس سے بہت سے سوالات اُٹھے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت تبدیل کی جاچکی ہے۔ شہباز شریف اب مسلم لیگ (ن) کی فرنٹ سیٹ پر آگئے ہیں کیا یہ سیاسی جماعتوں میں دوسرے درجے کی قیادت کو آگے لانے کا منصوبہ ہے سوال کا جواب ہاں میں ہے یا ناں میں‘ اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے اندر کا منظر تبدیل نہیں ہوا‘ شہباز شریف ووٹ کے لیے نواز شریف کا دم بھرنے پر مجبور رہیں گے تاہم وہ اپنے لیے راستہ بھی صاف کرتے چلے جائیں گے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ہدف یہی تھا اور ہے کہ نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کردیا جائے‘ عدلیہ نے یہ کام کر دکھایا لیکن تحریک انصاف سیاسی میدان میں عدلیہ کے اس فیصلے کا کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ مسلم لیگ (ن) نے بہتر چالیں چلیں اور حالات سے سمجھوتا کر لینے کے باوجود ’’ڈٹی‘‘ ہوئی ہے اگر مقدمات سے نجات دلادی جائے تو مسلم لیگ (ن) نئے حالات سے سمجھوتا کرنے پر تیار ہے لیکن بعض اوقات چیزیں انسان کے بس سے باہر بھی ہوجاتی ہیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد سیاسی میدان میں اب نئی صبح وشام پیدا ہوچکی ہے آج کے کھیل کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہی نکتہ سامنے ہے کہ ہم اپنی 70سالہ قومی زندگی میں ابھی تک منظم اصولوں کے مطابق کام کرنے پر اتفاق نہیں کرسکے ہیں ہماری وابستگی چاہے جمہوریت کے ساتھ ہو یا قانون کی حکمرانی کے ساتھ، قاعدے نامی کوئی چیز ڈھونڈے سے نہیں ملے گی ہرکوئی وہ کام کرنے پر تلا ہوا ہے جو کسی اور کے کرنے کا ہے‘ اب بالادستی کی بحث؟ اب حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں آرٹیکل 239 (5)، جس کے مطابق ’’آئین میں کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا‘‘ کی اپنی مرضی سے تشریح کی اور کہا کہ عدالت عظمیٰ ویٹو کی طاقت رکھتی ہے یہ فیصلہ کرے گی کہ کون سی ترمیم درست ہے اور کون سی نہیں۔ اب جب عدالت نے تشریح کے نام پر آئینی ترامیم کی جانچ کا اختیار حاصل کرلیا تو پھریہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عام قانون سازی پر اس کے اختیار کی کیا حد ہوگی آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت قائم سپریم جوڈیشل کونسل نے آئین کے آرٹیکل 209 (8) کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے یہ ضابطہ اخلاق جاری کررکھا ہے جس کی پاس داری کا جج نہ صرف حلف اٹھاتے ہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 209 میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو پابند بھی کیا گیا ہے کہ وہ اس ضابطہ اخلاق کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے سب سے پہلے 1962ء کے آئین کے آرٹیکل 128(4)کے تحت ججوں کا کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا تھا جو 10آرٹیکلز پر مشتمل تھا 29اگست 2009ء کو سپریم جوڈیشل کونسل نے اس میں آرٹیکل 11 کے اضافہ کی منظوری دی جس کے تحت ججوں کو آئین کے منافی حلف اٹھانے سے روکا گیا ہے۔ 2ستمبر2009ء کو اس اضافی آرٹیکل کے ساتھ کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا گیا جو اس وقت نافذ العمل ہے اس کا مطلب ہوا کہ عدالت وہی فیصلہ دے رہی ہے جو قانون میں درج ہے اور عدالت قانون سے باہر نکل کر فیصلے نہیں دے رہی۔