’’کتابِ مزید‘‘ کا ایک ورق؟

450

حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کا نام گر ے لسٹ میں شامل ہونے کے بعد جماعت الدعوۃ اور اس کی ذیلی تنظیم فلاح انسانیت فاونڈیشن کے اثاثے منجمد کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ ان اقدامات میں دونوں تنظیموں کی ایک سو ستر جائدادیں سرکاری تحویل میں لینا شامل ہے۔ جن میں اسکول ومدارس اور ایمبولینسیں بھی شامل ہیں۔ تنظیم کی چالیس ویب سائٹس بھی بند کر دی گئی ہیں جب کہ ستر افراد کے خلاف مقدمات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ جماعت الدعوۃ نے الزام عائد کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت بھارت اور امریکا کی خوشنودی کے لیے ان کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
جماعت الدعوۃ کا شمار ان تنظیموں میں ہوتا ہے جنہیں اقوام متحدہ کی طرف دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔ اقوام متحدہ کس دباؤ میں اور کن مصلحتوں کے تحت گزشتہ دو ڈھائی عشرے میں فیصلے کرتی رہی ہے ایک زمانہ اس حقیقت سے واقف اور آشنا ہے۔ بہر طور دنیا میں اس وقت بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول رائج ہے۔ لاٹھی والوں کا مفاد اس میں ہے کہ اس وقت جنوبی ایشیا میں بھارت مضبوط اور طاقتور ہو اور خطے میں کوئی بھی اس کی بالادستی کو چیلنج کرنے والا نہ ہو۔ اگر خطے کا کوئی ملک بھارت کے قد کے اونچا ہونے میں رکاوٹ ہے تو اس کی قطع وبرید کچھ اس انداز سے کی جائے کہ بھارت ایک مینارکی صورت میں نمایاں اور ممتاز دکھائی دے۔ لاٹھی والوں کی سوچ کے آگے اقوام متحدہ سمیت مغربی دنیا میں قائم تمام فورم اپنے انصاف کے خوشنما اور دلربا اصولوں کے ساتھ ہیچ ہیں۔ اس منظر میں جماعت الدعوۃ ایک بہانہ ہے۔ مطالبات اور خواہشات کی ایک پرت ہے۔ انگریزی اصطلاح ’’ڈومور‘‘ جس کا عربی میں ترجمہ ’’ہل من مزید‘‘ بنتا ہے کی ضخیم کتاب کا ایک صفحہ ہے۔ اس ’’کتابِ مزید‘‘ کے اگلے صفحات ایسے درجنوں مطالبات اور خواہشات سے بھرے پڑے ہیں جن میں بھارت کے کولڈ اسٹارٹ آپریشن کو ناکام بنانے کی غرض سے تیار کیے گئے چھوٹے اسٹرٹیجک ایٹمی ہتھیار نصر میزائل اور پھر باقی ایٹمی اثاثے بھی شامل ہیں۔ ڈومور کی اس کتابِ مزید میں آگے پاکستان کی جغرافیائی وحدت اور فوج کی تعداد اور جانے کیا کیا خواہشات درج ہیں۔ خطے میں اپنی گریٹ گیم کی نئی اسکیم کے لیے وہ ایک نیا پاکستان چاہتے ہیں۔ جو حکومت ان مطالبات کو ماننے پر مجبور ہے اسی کے وزیر داخلہ احسن اقبال کا یہ چونکا دینے والا بیان بھی اثاثے منجمد کرنے کی خبروں کے ساتھ اخبارات کی زینت بنا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ امریکا دباؤ بڑھا کر افغانستان میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے امریکا چاہتا ہے کہ وہ لسٹ دیتا رہے اور ہم اس پر عمل کرتے رہیں۔ احسن اقبال کے اس بیان میں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار کی روح بولتی محسوس ہوتی ہے۔ چودھری نثار علی خان جب اس طرح کے بیانات دیتے تھے تو سمجھا یہی جاتا تھا کہ وہ حکومت سے الگ لائن لینے کے لیے یا منفرد نظر آنے کے شوق میں یہ موقف اپنا رہے ہیں اب احسن اقبال بھی وہی بات کر رہے ہیں جو چودھری نثار علی خان کیا کرتے تھے۔ گویا کہ پاکستان کے وزرائے داخلہ کو جب داخلی سلامتی سے متعلق معاملات کو گہرائی سے جاننے اور جانچنے کا موقع ملتا ہے تو پھر رحمان ملک، چودھری نثار اور احسن اقبال کے بیانات کی سرخی میں صرف نام کا فرق رہتا ہے۔
پیپلزپارٹی کے دور میں جب حکومت اور میڈیا دہشت گردی کے خلاف طالبان طالبان کا منترا پڑھتی تھی تو رحمان ملک اشارتاً ہی سہی مگر تیسرے ہاتھ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ اس دوران امریکا کی نائب معاون وزیر خارجہ ایلس ویلز کا ایک بیان بھی دلچسپ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انتہا پسند تنظیموں کے خلاف پاکستان سے شراکت داری چاہتے ہیں۔ پاکستان افغان استحکام کے لیے اہم ہے اس سے تعلقات ختم نہیں کر رہے۔ انتہا پسند تنظیموں کے خلاف پاکستان سے شراکت داری میں امریکا تنہا نہیں بلکہ امریکا کا ایک اور بلکہ اصل شراکت دار بھی خطے میں موجود ہے اور وہ بھارت ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان انتہا پسند تنظیموں کے خلاف شراکت دار ی کی بیل منڈھے چڑھنا قطعی ناممکن نہیں۔ القاعدہ اور اس سے وابستہ کئی تنظیموں کے خلاف یہ شراکت داری برسوں کامیابی سے چلتی رہی ہے مگر یہاں پاکستان کے شراکت دار امریکا کا ایک شراکت دار بھی چھری چاقو تیز کر رہا ہے اور سرجیکل اسٹرائیکس کے نام پر ایسی کارروائیاں چاہتا ہے کہ جن پر پاکستان جوابی حملے کی صورت میں کارروائی اور نہ لفظی ردعمل ظاہر کرے۔ امریکا کے ابتدائی ڈرون حملوں کی طرح پاکستان اس پر خاموشی نیم رضا مندی والا رویہ اپنائے رکھے۔ ایلس ویلز کا یہ کہنا کہ پاکستان افغان استحکام کے لیے اہم ہے احسن اقبال کی اس بات کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ امریکا دباؤ بڑھا کر افغانستان میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتا ہے گویا کہ جنوبی ایشیا میں امریکا کے ایجنڈے میں پاکستان کی قطعی اہمیت نہیں اگر ہے بھی تو صرف اتنی کی اس کے ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں یا کسی دفاعی اسٹرٹیجی سے بھارت کو کوئی گزند نہ پہنچنے پائے۔ جنوبی ایشیا میں امریکا کا وہی ایجنڈا ہے جو بھارت اپنائے ہوئے ہے۔ جماعت الدعوۃ کے خلاف اقدامات کسی دباؤ میں ہورہے ہیں یا حکومت کے پاس اس تنظیم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت ہے؟ قطع نظر اس بات کے ملکی مفاد اور ملکی قانون کو ہر صورت میں مقدم اور پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ہمیں ذہنی اور عملی طور پر اس بات کے لیے تیار رہنا ہوگا کہ یہ صفحہ پوری طرح اُ لٹ گیا تو اگلا صفحہ نئے مطالبات سے عبارت ہوگا۔